Javed Kamal Rampuri

جاوید کمال رامپوری

جاوید کمال رامپوری کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    دل کو ملتا نہیں قرار کہیں

    دل کو ملتا نہیں قرار کہیں غم بھی ہوتا ہے سازگار کہیں جب گھٹائیں امڈ کے آتی ہیں بیٹھ جاتے ہیں بادہ خوار کہیں موسم گل میں ابر باراں میں دل پہ رہتا ہے اختیار کہیں تیری زلفوں کے پیچ و خم کے نثار گم نہ ہو جائے رہ گزار کہیں بوئے گل کے ہجوم رقصاں میں پر ٹھہرتی نہیں بہار کہیں

    مزید پڑھیے

    آرزوؤں کو اپنی کم نہ کرو

    آرزوؤں کو اپنی کم نہ کرو جینا چاہو تو کوئی غم نہ کرو ہاتھ آئے خوشی تو خوش ہولو دل ہو غمگیں تو آنکھ نم نہ کرو جیسی مل جائے جس قدر مل جائے پی بھی لو فکر بیش و کم نہ کرو جیسی گزرے گزارتے جاؤ ساز و ساماں کوئی بہم نہ کرو لوگ کہتے پھریں تمہیں کیا کیا آپ اپنے پہ یہ ستم نہ کرو جی میں جو ...

    مزید پڑھیے

    دل یہ امیدوار کس کا ہے

    دل یہ امیدوار کس کا ہے کیا کہیں انتظار کس کا ہے پرتو مہر میں خدا جانے روئے صد شعلہ بار کس کا ہے میری آنکھوں کے سامنے یا رب دیدۂ اشک بار کس کا ہے خاک پروانہ لے اڑی محفل شمع کو انتظار کس کا ہے آج دیوانگی فزوں تر ہے یہ غم انتظار کس کا ہے

    مزید پڑھیے

    شمع کی لو میں کچھ دھواں سا ہے

    شمع کی لو میں کچھ دھواں سا ہے کوئی پھر آج بد گماں سا ہے چاک داماں ہے آج بیتابی تیرے آنے کا کچھ گماں سا ہے آؤ اس دل میں آن کر دیکھیں آرزوؤں کا اک جہاں سا ہے کہنے سننے کی بات ہو تو کہیں حال تم پر تو سب عیاں سا ہے ٹھہرو ٹھہرو ابھی سے صبح کہاں یہ تو پچھلے کا کچھ سماں سا ہے

    مزید پڑھیے

    کارواں آتے ہیں اور آ کے چلے جاتے ہیں

    کارواں آتے ہیں اور آ کے چلے جاتے ہیں ایک ہم ہیں کہ اسی سمت تکے جاتے ہیں دن گزرتے ہیں مہ و سال گزر جاتے ہیں وقت کے پاؤں بھی چل چل کے تھکے جاتے ہیں جانے آواز جرس ہے کہ صدائے صحرا ایک آواز سی سنتے ہیں سنے جاتے ہیں غم نے کروٹ کبھی بدلی تھی مگر آج تلک دل کے آغوش میں کانٹے سے چبھے جاتے ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    انقلاب

    رات ڈھلتی ہے صبح ہوتی ہے کھول دو اب تو اٹھ کے دروازہ اس اندھیری سی کوٹھری میں آج وقت آیا ہے رہنے بسنے کو ایسے مہماں کا کیا بھروسہ ہے یہ دبے پاؤں لوٹ جائے گا

    مزید پڑھیے

    فردا

    زمانہ ساتھ چلا ہے تو ساتھ غم بھی چلے حیات و موت کے رشتہ میں ایک اور گرہ افق کے پاس سیاہی کی سرحدوں سے دور شفق کی گود میں کرنوں کی سانس ٹوٹ گئی تھکے تھکے سے مسافر ادھار کی پونجی جو کائنات کے ورثے کی اک خیانت ہے چلے ہیں لے کے کسی شاہراہ کی جانب

    مزید پڑھیے

    یاد فراموش

    ہچکیاں آتی ہیں دل ڈوب رہا ہے شاید آج بھولے سے تمہیں یاد مری آئی ہے یاد ہے تم نے اک امردو جو کچا تھا ابھی نام سے میرے چنا تھا جس پر اپنے ہاتھوں سے سیہ کپڑا بھی باندھا تھا مگر جس کی لگنی تھی نظر لگ کے رہی کیا اسی پیڑ کے نیچے ہو ذرا سوچو تو بے ثمر شاخ لچکتی ہے تو کیا ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    دو اجنبی

    آج بھی صبح سے نکلے تھے کہیں کوئی امید کوئی آس نہیں کوئی وعدہ کوئی اقرار نہیں کون جانے کہ کہاں جاتے ہو روز آتے ہو چلے آتے ہو اجنبی دیس ہے پردیسی ہو کوئی رشتہ کوئی ناطہ بھی نہیں کوئی اپنا یا پرایا بھی نہیں نوکری یا کسی دھندے کے لئے کوئی نیتا یا کوئی افسر ہے کوئی فن کوئی ہنر آتا ...

    مزید پڑھیے

7 قطعہ (Qita)

    پا لیا پھر کسی امید نے فردا کا سراغ

    پا لیا پھر کسی امید نے فردا کا سراغ تشنگی ڈھونڈھ رہی ہے مے و مینا و ایاغ ذہن میں پھر سے ابھرنے لگے ماضی کے نقوش دل میں ہونے لگے روشن تری یادوں کے چراغ پھر سے اک موج طرب موجۂ رنگ اٹھی ہے پھر سے ملنے کو ہے شاید غم ہستی کا سراغ

    مزید پڑھیے

    دل ویراں کو اب کی بار شاید

    دل ویراں کو اب کی بار شاید غموں نے اپنا مسکن کر لیا ہے ترے وحشی نے اب تو اپنے حق میں زمانہ بھر کو دشمن کر لیا ہے غزل ظالم سے ہم بھی ہار بیٹھے اسی کو اپنا اب فن کر لیا ہے

    مزید پڑھیے

    نیند اڑ جائے گی راتوں کو شکایت ہوگی

    نیند اڑ جائے گی راتوں کو شکایت ہوگی میں نہ سمجھا تھا تمہیں اتنی محبت ہوگی نظریں ڈھونڈیں گی ہر اک راہ پہ قدموں کے نشاں بال بکھرائے ہوئے منزلوں وحشت ہوگی یہی آشفتہ مزاجی ہے تو اے جان وفا آج بستی میں ہے کل شہر میں شہرت ہوگی

    مزید پڑھیے

تمام