Javed Kamal Rampuri

جاوید کمال رامپوری

جاوید کمال رامپوری کی نظم

    انقلاب

    رات ڈھلتی ہے صبح ہوتی ہے کھول دو اب تو اٹھ کے دروازہ اس اندھیری سی کوٹھری میں آج وقت آیا ہے رہنے بسنے کو ایسے مہماں کا کیا بھروسہ ہے یہ دبے پاؤں لوٹ جائے گا

    مزید پڑھیے

    فردا

    زمانہ ساتھ چلا ہے تو ساتھ غم بھی چلے حیات و موت کے رشتہ میں ایک اور گرہ افق کے پاس سیاہی کی سرحدوں سے دور شفق کی گود میں کرنوں کی سانس ٹوٹ گئی تھکے تھکے سے مسافر ادھار کی پونجی جو کائنات کے ورثے کی اک خیانت ہے چلے ہیں لے کے کسی شاہراہ کی جانب

    مزید پڑھیے

    یاد فراموش

    ہچکیاں آتی ہیں دل ڈوب رہا ہے شاید آج بھولے سے تمہیں یاد مری آئی ہے یاد ہے تم نے اک امردو جو کچا تھا ابھی نام سے میرے چنا تھا جس پر اپنے ہاتھوں سے سیہ کپڑا بھی باندھا تھا مگر جس کی لگنی تھی نظر لگ کے رہی کیا اسی پیڑ کے نیچے ہو ذرا سوچو تو بے ثمر شاخ لچکتی ہے تو کیا ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    دو اجنبی

    آج بھی صبح سے نکلے تھے کہیں کوئی امید کوئی آس نہیں کوئی وعدہ کوئی اقرار نہیں کون جانے کہ کہاں جاتے ہو روز آتے ہو چلے آتے ہو اجنبی دیس ہے پردیسی ہو کوئی رشتہ کوئی ناطہ بھی نہیں کوئی اپنا یا پرایا بھی نہیں نوکری یا کسی دھندے کے لئے کوئی نیتا یا کوئی افسر ہے کوئی فن کوئی ہنر آتا ...

    مزید پڑھیے