انقلاب
رات ڈھلتی ہے صبح ہوتی ہے کھول دو اب تو اٹھ کے دروازہ اس اندھیری سی کوٹھری میں آج وقت آیا ہے رہنے بسنے کو ایسے مہماں کا کیا بھروسہ ہے یہ دبے پاؤں لوٹ جائے گا
رات ڈھلتی ہے صبح ہوتی ہے کھول دو اب تو اٹھ کے دروازہ اس اندھیری سی کوٹھری میں آج وقت آیا ہے رہنے بسنے کو ایسے مہماں کا کیا بھروسہ ہے یہ دبے پاؤں لوٹ جائے گا
زمانہ ساتھ چلا ہے تو ساتھ غم بھی چلے حیات و موت کے رشتہ میں ایک اور گرہ افق کے پاس سیاہی کی سرحدوں سے دور شفق کی گود میں کرنوں کی سانس ٹوٹ گئی تھکے تھکے سے مسافر ادھار کی پونجی جو کائنات کے ورثے کی اک خیانت ہے چلے ہیں لے کے کسی شاہراہ کی جانب
ہچکیاں آتی ہیں دل ڈوب رہا ہے شاید آج بھولے سے تمہیں یاد مری آئی ہے یاد ہے تم نے اک امردو جو کچا تھا ابھی نام سے میرے چنا تھا جس پر اپنے ہاتھوں سے سیہ کپڑا بھی باندھا تھا مگر جس کی لگنی تھی نظر لگ کے رہی کیا اسی پیڑ کے نیچے ہو ذرا سوچو تو بے ثمر شاخ لچکتی ہے تو کیا ہوتا ہے
آج بھی صبح سے نکلے تھے کہیں کوئی امید کوئی آس نہیں کوئی وعدہ کوئی اقرار نہیں کون جانے کہ کہاں جاتے ہو روز آتے ہو چلے آتے ہو اجنبی دیس ہے پردیسی ہو کوئی رشتہ کوئی ناطہ بھی نہیں کوئی اپنا یا پرایا بھی نہیں نوکری یا کسی دھندے کے لئے کوئی نیتا یا کوئی افسر ہے کوئی فن کوئی ہنر آتا ...