Javed Akhtar Bedi

جاوید اختر بیدی

جاوید اختر بیدی کی غزل

    راستے میں کسی منزل پہ بھی آرام نہ لوں

    راستے میں کسی منزل پہ بھی آرام نہ لوں وہ مسافر ہوں کہ رکنے کا کہیں نام نہ لوں میرے حالات کا مدت سے تقاضا یہ ہے اپنے سر ظلم سے نفرت کا میں الزام نہ لوں حبس کے گیت ہی سنتا رہوں اس جنگل میں عمر بھر دست صبا سے کوئی پیغام نہ لوں بند کر لوں میں یہ آنکھیں کہ ستم ہوتا ہے اپنی آنکھوں سے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی تجویز پر گنوائے گئے

    اپنی تجویز پر گنوائے گئے ہم اگر اس جہاں میں پائے گئے دل کے اطراف میں امیدیں تھیں دیکھ دیکھ ان کو مسکرائے گئے اپنے ہونے میں سانس لیتے تھے مر گئے اس قدر ستائے گئے فرض تھے جو نہیں ہوئے وہ ادا قرض تھے جو نہیں چکائے گئے فائدہ موت میں دکھائی دیا زیست والے اداس پائے گئے کیا بدی کا ...

    مزید پڑھیے

    درد بھی گنتے رہو اور خواب بھی گنتے رہو

    درد بھی گنتے رہو اور خواب بھی گنتے رہو کتنا اچھا کام ہے لیکن اکیلے مت کرو میں نے اس کی روشنی میں جس قدر نظمیں کہیں ان کو دیواروں پہ لکھنا ہے مرا تم ساتھ دو عمر کے یہ سال بھی آخر گزر ہی جائیں گے چاند وعدے کی طرف تکتے رہو اور خوش رہو رزق کی مچھلی کی خاطر قتل کر دیتے ہیں لوگ ہو سکے ...

    مزید پڑھیے

    درد پایا ہے تو اک درد آشنا بھی چاہیے

    درد پایا ہے تو اک درد آشنا بھی چاہیے پتھروں کے اس نگر میں آئنہ بھی چاہیے جس کی محفل میں سنائی دیں قیامت کے حروف ایک ایسا پیکر صوت و صدا بھی چاہیے میں تو وہ انسان ہوں جس کی وفا سے ہے غرض بعض لوگوں کو مگر داد وفا بھی چاہیے خاک داں پر ظلم ہے بے چارگی ہے خوف ہے چرخ پر اک مالک ارض و ...

    مزید پڑھیے

    ابر کا سایہ دھوپ کی چادر تیرے نام

    ابر کا سایہ دھوپ کی چادر تیرے نام اس دھرتی کے سارے منظر تیرے نام شب کے گریے سے فرصت کی سبیل کہاں جیسا بھی ہے اپنا مقدر تیرے نام گرتی بجلی جلتا نشیمن ہنستے لوگ میرے پتھر میرے گل تر تیرے نام گلی گلی میں تیز ہوا کی سرگوشی اور گھر گھر کے سرو و صنوبر تیرے نام چپ رہ کر میں جی لوں ظلم ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کا پردہ ہے درمیاں ترے میرے اور پیار جاری ہے

    روشنی کا پردہ ہے درمیاں ترے میرے اور پیار جاری ہے پیار میں محبت میں ہم نہ خود کو بدلیں گے ایسی اپنی یاری ہے ہاتھ میں جو آنکھیں ہیں ان پہ ہی فقط تکیہ کس قدر ہے نا کافی کچھ مدد بھی لی جائے دوسروں سے اوروں سے یہ بھی ہوشیاری ہے ڈھنگ ہے سماعت کا رنگ ہے بصارت کا بے طرح و بے معنی ننگ کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ اپنا شہر جو ہے دشت بے اماں ہی تو ہے

    یہ اپنا شہر جو ہے دشت بے اماں ہی تو ہے اس اعتبار سے دل درد کا مکاں ہی تو ہے نہیں ہے پرسش احوال کے لیے کوئی بس ایک مجمع ارواح رفتگاں ہی تو ہے یہ داستان تمنا عجب سہی پھر بھی بھلا ہی دے گا زمانہ کہ داستاں ہی تو ہے یہ اور بات ابھی انقلاب آ جائے حیات ورنہ ابھی تک وبال جاں ہی تو ...

    مزید پڑھیے

    نہ سارباں ہے نہ ناقہ دکھائی دیتا ہے

    نہ سارباں ہے نہ ناقہ دکھائی دیتا ہے نہ جانے کس کا یہ خیمہ دکھائی دیتا ہے بھرے جہاں میں اکیلا دکھائی دیتا ہے وہ ایک شخص جو سچا دکھائی دیتا ہے مسافرو کہوں کیا راہبر کے بارے میں بظاہر آدمی سادہ دکھائی دیتا ہے کہیں زمین کی تہ میں بھی شکل آب نہیں کہیں پہاڑ پہ چشمہ دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    تیرگی کی شدت کو صبح کا ستارا لکھ

    تیرگی کی شدت کو صبح کا ستارا لکھ پھیلنے ہی والا ہے ہر طرف اجالا لکھ رزم گاہ ہستی میں یوں برا نہ سوچ اپنا دشمنوں کے اندر کے صلح جو کو اچھا لکھ نقش پا کے جنگل میں کیا شمار رستوں کا ہے جدا زمانے سے لیکن اپنا رستہ لکھ بے حسی کا یہ جادو ٹوٹ ہی تو جائے گا اس لیے نہ قریے کو پتھروں کا ...

    مزید پڑھیے

    جب سینے سے مرنے کا ڈر نکلے گا

    جب سینے سے مرنے کا ڈر نکلے گا اور ہی کچھ یہ خاک کا پیکر نکلے گا بو جو رہا ہوں امن و اماں کی فصلیں میں دیکھنا کل اس خاک سے لشکر نکلے گا سیل بنے گا ہونے کا ادراک کبھی اس منظر سے اور ہی منظر نکلے گا دنیا جیتے جی جو دنیا ہو نہ سکی سینے سے یہ ارماں مر کر نکلے گا گل چینوں کے ظلم کی کوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3