راستے میں کسی منزل پہ بھی آرام نہ لوں
راستے میں کسی منزل پہ بھی آرام نہ لوں وہ مسافر ہوں کہ رکنے کا کہیں نام نہ لوں میرے حالات کا مدت سے تقاضا یہ ہے اپنے سر ظلم سے نفرت کا میں الزام نہ لوں حبس کے گیت ہی سنتا رہوں اس جنگل میں عمر بھر دست صبا سے کوئی پیغام نہ لوں بند کر لوں میں یہ آنکھیں کہ ستم ہوتا ہے اپنی آنکھوں سے ...