درد پایا ہے تو اک درد آشنا بھی چاہیے
درد پایا ہے تو اک درد آشنا بھی چاہیے
پتھروں کے اس نگر میں آئنہ بھی چاہیے
جس کی محفل میں سنائی دیں قیامت کے حروف
ایک ایسا پیکر صوت و صدا بھی چاہیے
میں تو وہ انسان ہوں جس کی وفا سے ہے غرض
بعض لوگوں کو مگر داد وفا بھی چاہیے
خاک داں پر ظلم ہے بے چارگی ہے خوف ہے
چرخ پر اک مالک ارض و سماں بھی چاہیے
ان دنوں یوں تو ہے سب کو سنگ ہو جانے کا شوق
آئنہ خانے میں رہنے کی جگہ بھی چاہیے
رت بدلنے سے نہیں بیدیؔ کسی کو بھی غرض
سب کو لیکن کچھ الگ آب و ہوا بھی چاہیے