روشنی کا پردہ ہے درمیاں ترے میرے اور پیار جاری ہے

روشنی کا پردہ ہے درمیاں ترے میرے اور پیار جاری ہے
پیار میں محبت میں ہم نہ خود کو بدلیں گے ایسی اپنی یاری ہے


ہاتھ میں جو آنکھیں ہیں ان پہ ہی فقط تکیہ کس قدر ہے نا کافی
کچھ مدد بھی لی جائے دوسروں سے اوروں سے یہ بھی ہوشیاری ہے


ڈھنگ ہے سماعت کا رنگ ہے بصارت کا بے طرح و بے معنی
ننگ کے لیے دوڑیں ہم بھی ساری دنیا میں ایک جنگ جاری ہے


سرخ لفظ ہیں میرے میں بھی شعر کہتا ہوں اور جب سناتا ہوں
کوئی بول اٹھتا ہے شعر شعر میں تیرے ایک غم گساری ہے


سر برہنہ شاخوں پر ایک دن وہ آتا ہے اور گلاب کھلتے ہیں
تجربہ ہے یہ اپنا ہم نے بھی یہاں آخر زندگی گزاری ہے


آنکھ والے ساون میں ایک بات دیکھی ہے اور کہہ بھی دوں تم سے
تشنگی مٹاتا ہے دل کی تشنگی کا یہ قدرتی شکاری ہے


بجھ رہی ہیں کیوں آنکھیں ساتھ ماہ و انجم کے کون سا یہ سورج ہے
زندگی نہ چھن جائے عارضی سی تو بیدیؔ زندگی ہماری ہے