Javed Akhtar Bedi

جاوید اختر بیدی

جاوید اختر بیدی کی غزل

    جو دہر کی نظر میں خداوند ہوش ہے

    جو دہر کی نظر میں خداوند ہوش ہے اس انتہائے ظلم پہ وہ بھی خموش ہے صحرا کی منزلوں سے پرے ہے وہ لالہ زار پردے میں جس کی رت کے کوئی مے فروش ہے تہذیب استوار کی خواہش کی راہ میں نام دگر حیات کا جوش و خروش ہے کل تو سنے گا ظلم سے میرا مکالمہ اپنا جہان آج ہی محتاج گوش ہے انساں پکارتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    یہ ظلم ہے کہ مرے شہر کا جو قاتل ہے

    یہ ظلم ہے کہ مرے شہر کا جو قاتل ہے ہزار جان سے وہ دوستی کے قابل ہے مجھے ہی وار پہ لاتا ہے ہر زمانے میں مجھے بتا یہ زمانہ کہاں کا عادل ہے لہو اور آگ کا دریا ہے میرے رستے میں کہ میری ذات ہی رستے میں میرے حائل ہے صداقتوں سے نکھرتا ہے آدمی کا شعور صداقتوں کو سمجھنا بہت ہی مشکل ...

    مزید پڑھیے

    اس ایک بات پہ مشکل میں جاں ہے کوئی سنے

    اس ایک بات پہ مشکل میں جاں ہے کوئی سنے کہ چپ ہے اور کراں تا کراں ہے کوئی سنے صدا یہی ہے کہ تاراں کے حرف سننے دو مگر کوئی نہیں سنتا فغاں ہے کوئی سنے جو نظم بھی ہے محبت کی نظم لگتی ہے کہ جسم و جاں میں محبت جواں ہے کوئی سنے چلا گیا ہے مگر اس کے پیرہن کی شمیم یہ کہہ رہی ہے وہ اب تک یہاں ...

    مزید پڑھیے

    نیا موسم در آیا دشت میں برگ و ثمر جاگے

    نیا موسم در آیا دشت میں برگ و ثمر جاگے زمانوں سے جو محو خواب تھے قلب و نظر جاگے نئے حرفوں کے پھولوں کو سجایا وقت نے لب پر نئے حرفوں کے پھولوں میں نئے کیف و اثر جاگے وہ دور آیا صدا ظلم و ستم کے بھی خلاف اٹھی ہماری اور تری دنیا کے ارباب ہنر جاگے قیامت کوچہ و بازار میں یوں ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    میرے ذرے کے مقدر میں ہے صحرا ہونا

    میرے ذرے کے مقدر میں ہے صحرا ہونا اک نہ اک روز ہے مجھ کو بھی ہویدا ہونا شاید اس واسطے پہچان تری مشکل ہے اتنا آسان نہیں خود سے شناسا ہونا اتنا بینا ہوں کہ گلشن کی ہوا خواہی میں دیکھ سکتا نہیں شاخوں کا برہنہ ہونا دیکھ اس دور میں آلام و مصائب کے ہجوم دیکھ اس دور میں انسان کا تنہا ...

    مزید پڑھیے

    یہی لکھا ہے کہ اب میں نہ ماسوا میں رہوں

    یہی لکھا ہے کہ اب میں نہ ماسوا میں رہوں سفیر خاک کی صورت کہیں خلا میں رہوں سکوت کا یہ نگر بھی مجھے عزیز رہے اگر میں جا کے کسی محشر نوا میں رہوں میں منزلوں کے لئے راستے میں مر جاؤں مگر خدا نہ کرے شہر نارسا میں رہوں میں دیکھتا ہی رہوں حشر تک بقا کے خواب میں حشر تک ہی نہ کیوں پنجۂ ...

    مزید پڑھیے

    مہر جب تک حلقۂ آفاق میں آیا نہ تھا

    مہر جب تک حلقۂ آفاق میں آیا نہ تھا تیرگی ہی معتبر ہوگی کبھی سوچا نہ تھا زندگی کے شہر میں مردہ دلی تقدیر تھی جو بھی جان بزم تھا اس کا کوئی چہرہ نہ تھا پیاس کو آنے لگا تھا حکمرانی کا ہنر ابر کا ٹکڑا کسی کو یاد بھی آتا نہ تھا اس سے پہلے ایسی شدت تو اندھیرے میں نہ تھی روشنی کا حرف ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو پردہ ہے کسی روز اٹھایا جائے

    یہ جو پردہ ہے کسی روز اٹھایا جائے کون ہوں میں یہ زمانے کو بتایا جائے آرزو یہ ہے کہ دیوانہ کہا جائے مجھے نام لے کر نہ مرا مجھ کو بلایا جائے جنبش چشم سے نغمہ ہوئی جاتی ہے فضا کیا قیامت ہو لبوں کو جو ہلایا جائے وہ مری فکر کی بانہوں میں نہیں آ سکتا سوچتا ہوں اسے سینے سے لگایا ...

    مزید پڑھیے

    ہر رات انتظار سحر کر لیا گیا

    ہر رات انتظار سحر کر لیا گیا اس طرح زندگی کو بسر کر لیا گیا میری تمام عمر کٹی اضطراب میں مجھ سے سکوں کا سانس بھی مر کر لیا گیا مرنے سے میرے رک نہ سکا میرا کارواں دیوار تیرگی میں بھی در کر لیا گیا بیدی اگر سفر میں نہ سایہ کہیں ملا سائے کی آرزو میں سفر کر لیا گیا

    مزید پڑھیے

    کروں گا زندگی میں خلق آشنا ہو کر

    کروں گا زندگی میں خلق آشنا ہو کر سواد سنگ جہاں میں اک آئنہ ہو کر خزاں کا دور ہے اور دل میں آرزو یہ ہے کہ میں گلاب کھلاتا پھروں صبا ہو کر یہ چپ کا شہر مرے ساتھ جو سلوک کرے میں چپ کے شہر میں زندہ رہوں صدا ہو کر جو حشر تک رہا دنیا میں تیرگی کا سماں تو حشر تک میں رہوں گا چراغ پا ہو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3