جب سینے سے مرنے کا ڈر نکلے گا
جب سینے سے مرنے کا ڈر نکلے گا
اور ہی کچھ یہ خاک کا پیکر نکلے گا
بو جو رہا ہوں امن و اماں کی فصلیں میں
دیکھنا کل اس خاک سے لشکر نکلے گا
سیل بنے گا ہونے کا ادراک کبھی
اس منظر سے اور ہی منظر نکلے گا
دنیا جیتے جی جو دنیا ہو نہ سکی
سینے سے یہ ارماں مر کر نکلے گا
گل چینوں کے ظلم کی کوئی حد ہی نہیں
کس دن ہر اک شاخ سے خنجر نکلے گا
جد و جہد کی جس سے باتیں ہوتی ہیں
کیا ہوگا جب اک دن مخبر نکلے گا
بیدیؔ میرا قدم ہی ہوگا دنیا میں
جو حد امکاں سے باہر نکلے گا