نہ سارباں ہے نہ ناقہ دکھائی دیتا ہے

نہ سارباں ہے نہ ناقہ دکھائی دیتا ہے
نہ جانے کس کا یہ خیمہ دکھائی دیتا ہے


بھرے جہاں میں اکیلا دکھائی دیتا ہے
وہ ایک شخص جو سچا دکھائی دیتا ہے


مسافرو کہوں کیا راہبر کے بارے میں
بظاہر آدمی سادہ دکھائی دیتا ہے


کہیں زمین کی تہ میں بھی شکل آب نہیں
کہیں پہاڑ پہ چشمہ دکھائی دیتا ہے


وہ آدمی جو کسی پر ستم نہ دیکھ سکے
مجھے وہ دیکھنے والا دکھائی دیتا ہے


وہ تیرگی ہے کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا
بس اک امید کا تارہ دکھائی دیتا ہے


وہ دور دیکھ درختوں کے جھنڈ ہیں بیدیؔ
وہ دور کوئی جزیرہ دکھائی دیتا ہے