یہی لکھا ہے کہ اب میں نہ ماسوا میں رہوں

یہی لکھا ہے کہ اب میں نہ ماسوا میں رہوں
سفیر خاک کی صورت کہیں خلا میں رہوں


سکوت کا یہ نگر بھی مجھے عزیز رہے
اگر میں جا کے کسی محشر نوا میں رہوں


میں منزلوں کے لئے راستے میں مر جاؤں
مگر خدا نہ کرے شہر نارسا میں رہوں


میں دیکھتا ہی رہوں حشر تک بقا کے خواب
میں حشر تک ہی نہ کیوں پنجۂ فنا میں رہوں


پرانے پیڑ بھی حیرت سے مجھ کو دیکھتے ہیں
جو ان سے بڑھ کے میں ثابت قدم ہوا میں رہوں