مہر جب تک حلقۂ آفاق میں آیا نہ تھا
مہر جب تک حلقۂ آفاق میں آیا نہ تھا
تیرگی ہی معتبر ہوگی کبھی سوچا نہ تھا
زندگی کے شہر میں مردہ دلی تقدیر تھی
جو بھی جان بزم تھا اس کا کوئی چہرہ نہ تھا
پیاس کو آنے لگا تھا حکمرانی کا ہنر
ابر کا ٹکڑا کسی کو یاد بھی آتا نہ تھا
اس سے پہلے ایسی شدت تو اندھیرے میں نہ تھی
روشنی کا حرف ہونٹوں سے جدا ہوتا نہ تھا
دن تھے لیکن انقلاب آنے سے پہلے کے تھے دن
پھول ابھی مہکا نہ تھا پتھر ابھی بولا نہ تھا
دکھ کے سورج کو سوا نیزے پہ بیدیؔ دیکھ کر
خواب سکھ کے دیکھتا تھا آدمی اندھا نہ تھا