کروں گا زندگی میں خلق آشنا ہو کر
کروں گا زندگی میں خلق آشنا ہو کر
سواد سنگ جہاں میں اک آئنہ ہو کر
خزاں کا دور ہے اور دل میں آرزو یہ ہے
کہ میں گلاب کھلاتا پھروں صبا ہو کر
یہ چپ کا شہر مرے ساتھ جو سلوک کرے
میں چپ کے شہر میں زندہ رہوں صدا ہو کر
جو حشر تک رہا دنیا میں تیرگی کا سماں
تو حشر تک میں رہوں گا چراغ پا ہو کر
مرے سکوت و صدا کے شریک ہو جاؤ
رہ حیات سے گزریں گے قافلہ ہو کر
فنا کا شہر ہے یہ زیست کا جہاں بیدیؔ
یہاں مرو بھی تو پیغمبر بقا ہو کر