Jameeluddin Aali

جمیل الدین عالی

اپنے دوہوں کے لیے مشہور

Famous for writing Dohas.

جمیل الدین عالی کی غزل

    یہ عشق کی گلیاں جن میں ہم کس کس عالم میں آئے گئے

    یہ عشق کی گلیاں جن میں ہم کس کس عالم میں آئے گئے کہتی ہیں کہ حضرت اب کیسے تم آج یہاں کیوں پائے گئے اک شرط ہے یاں خوشبوئے وفا یاد آئے تو کرنا یاد ذرا جب تم پہ بھروسا تھا گل کا کیا مہکے کیا مہکائے گئے ہے یہ وہی لوح باب جنوں لکھا ہے نہ پوچھو کیا اور کیوں تم لائے کلید جذب دروں اور سب ...

    مزید پڑھیے

    کسی کو ناز‌ خرد ہے کسی کو فخر جنوں

    کسی کو ناز‌ خرد ہے کسی کو فخر جنوں میں اپنے دل کا فسانہ کہوں تو کس سے کہوں نہ اضطراب میں لذت نہ آرزوئے سکوں کوئی کہے کہ میں اب کیا فریب کھا کے جیوں رہے گی پھر نہ یہ کیفیت طلب اے دل چھپے ہوئے ہیں تو ہے اشتیاق دید فزوں ہے آج دل پہ گماں حسن نا شناسی کا جلا چکے جب اسے جلو‌ ہائے گونا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دن گزرے عالیؔ صاحب عالیؔ جی کہلاتے تھے

    کچھ دن گزرے عالیؔ صاحب عالیؔ جی کہلاتے تھے محفل محفل قریہ قریہ شعر سناتے جاتے تھے قدر سخن ہم کیا جانیں ہاں رنگ سخن کچھ ایسا تھا اچھے اچھے کہنے والے اپنے پاس بٹھاتے تھے غزلوں میں سو رنگ ملا کر اپنا رنگ ابھارا تھا استادوں کے سائے میں کچھ اپنی راہ بناتے تھے گیتوں میں کچھ اور نہ ...

    مزید پڑھیے

    گلا نہیں جو وہ بیگانہ وار گزرے ہیں

    گلا نہیں جو وہ بیگانہ وار گزرے ہیں ہم ایسے اہل سخن بے شمار گزرے ہیں ترس نہ کھاؤ مری شدت تباہی پر کہ عمر بھر یہی لیل و نہار گزرے ہیں تمام عمر رہا خوف نا پذیرائی جدھر سے گزرے ہیں دیوانہ وار گزرے ہیں ہمیں سے تذکرۂ قحط عاشقاں توبہ ہمیں تو کل ترے کوچے سے یار گزرے ہیں رہین وضع ...

    مزید پڑھیے

    بے سبب تجھ سے ہر اک بات پہ نالاں ہونا

    بے سبب تجھ سے ہر اک بات پہ نالاں ہونا اپنا پیشہ ہی جو ٹھہرا ہے پریشاں ہونا اتنی رسوائیاں سہہ لی ہیں تو اک یہ بھی سہی ہم کو منظور ہے منت کش درباں ہونا تجھ میں کیا بات ہے جو مجھ میں نہیں ہے ظالم ہاں مگر تیرے لیے میرا پریشاں ہونا ہائے اس بزم کے آداب جہاں لازم ہو کبھی حیراں نظر آنا ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کہ ہم نے کبھی حال سوز جاں نہ کہا

    نہیں کہ ہم نے کبھی حال سوز جاں نہ کہا مگر بہ حیلۂ آرائش بیاں نہ کہا کوئی خطا نہ ہوئی جس کی یہ ملے پاداش مگر یہی کہ زمینوں کو آسماں نہ کہا جس انجمن سے ہوا قصۂ جنوں آغاز وہیں کبھی نہ کہا گو کہاں کہاں نہ کہا یہ احترام تعلق یہ احتیاط تو دیکھ کہ زندگی کو کبھی ہم نے رائیگاں نہ ...

    مزید پڑھیے

    بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو گھر واپس کب آئے گا

    بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو گھر واپس کب آئے گا کب یہ در و دیوار سجیں گے کب یہ چمن لہرائے گا سوکھ چلے وہ غنچے جن سے کیا کیا پھول ابھرنے تھے اب بھی نہ ان کی پیاس بجھی تو گھر جنگل ہو جائے گا کم کرنیں ایسی ہیں جو اب تک راہ اسی کی تکتی ہیں یہ اندھیارا اور رہا تو پھر نہ اجالا آئے گا سمجھا ...

    مزید پڑھیے

    عالؔی جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے

    عالؔی جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے ساتھ بھی دے تو آخر پیارے کوئی کہاں تک جائے جس سورج کی آس لگی ہے شاید وہ بھی آئے تم یہ کہو خود تم نے اب تک کتنے دیئے جلائے اپنا کام ہے صرف محبت باقی اس کا کام جب چاہے وہ روٹھے ہم سے جب چاہے من جائے کیا کیا روگ لگے ہیں دل کو کیا کیا ان کے ...

    مزید پڑھیے

    کیا کیا دئے فریب ہر اک اعتبار نے

    کیا کیا دئے فریب ہر اک اعتبار نے اپنا بنا دیا ہے ترے انتظار نے کیا جانے کتنے اہل طریقت کو آج تک گمراہ کر دیا ہے ترے رہ گزار نے کچھ ان کی جستجو ہے نہ کچھ اپنی گفتگو یہ کیا بنا دیا ستم روزگار نے ہاں اے نگاہ گرم نہ کر مختصر حیات ہم کو ہزار بوجھ ابھی ہیں اتارنے الجھے ہوئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اگلی گلی میں رہتا ہے اور ملنے تک نہیں آتا ہے

    اگلی گلی میں رہتا ہے اور ملنے تک نہیں آتا ہے کہتا ہے تکلف کیا کرنا ہم تم میں تو پیار کا ناتا ہے کہتا ہے زیادہ ملنے سے وعدوں کی خلش بڑھ جائے گی کچھ وعدے وقت پہ بھی چھوڑو دیکھو وہ کیا دکھلاتا ہے کہتا ہے تمہارا دوش نہ تھا کچھ ہم کو بھی اپنا ہوش نہ تھا پھر ہنستا ہے پھر روتا ہے پھر چپ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5