یہ عشق کی گلیاں جن میں ہم کس کس عالم میں آئے گئے
یہ عشق کی گلیاں جن میں ہم کس کس عالم میں آئے گئے
کہتی ہیں کہ حضرت اب کیسے تم آج یہاں کیوں پائے گئے
اک شرط ہے یاں خوشبوئے وفا یاد آئے تو کرنا یاد ذرا
جب تم پہ بھروسا تھا گل کا کیا مہکے کیا مہکائے گئے
ہے یہ وہی لوح باب جنوں لکھا ہے نہ پوچھو کیا اور کیوں
تم لائے کلید جذب دروں اور سب منظر دکھلائے گئے
اک تخت روان شعر آیا کچھ شاہ سخن نہ فرمایا
پھر تاج ترنم پہنایا اور غزلوں میں تلوائے گئے
اک طبع رسا سے کیا بنتا یہ ان گلیوں کا صدقہ تھا
وہ لفظ اور وہ اسلوب ملے اور وہ معنی سجوائے گئے
حیرت سے ٹھہر جاتی تھی یہاں یہ کہتی ہوئی ہر کاہکشاں
جب یوں مل جانا ممکن ہے تو پھر ہم کیوں پھیلائے گئے
دنیا کے سہی انداز بہت ان گلیوں کے بھی ہیں راز بہت
جو ٹھہرے وہ سرافراز ہوئے جو نکلے وہ ٹھکرائے گئے