نہیں کہ ہم نے کبھی حال سوز جاں نہ کہا

نہیں کہ ہم نے کبھی حال سوز جاں نہ کہا
مگر بہ حیلۂ آرائش بیاں نہ کہا


کوئی خطا نہ ہوئی جس کی یہ ملے پاداش
مگر یہی کہ زمینوں کو آسماں نہ کہا


جس انجمن سے ہوا قصۂ جنوں آغاز
وہیں کبھی نہ کہا گو کہاں کہاں نہ کہا


یہ احترام تعلق یہ احتیاط تو دیکھ
کہ زندگی کو کبھی ہم نے رائیگاں نہ کہا


ترے کرم کو کرم ہی کہا ستم کو ستم
زہے خلوص تمنا کہ امتحاں نہ کہا


ہزار خشک رہا اپنی زندگی کا چمن
تری بہار کو لیکن کبھی خزاں نہ کہا


ہمیں بھی ندرت اسلوب تھی عزیز مگر
انہیں جہاں ہی پکارا غم جہاں نہ کہا