کچھ دن گزرے عالیؔ صاحب عالیؔ جی کہلاتے تھے

کچھ دن گزرے عالیؔ صاحب عالیؔ جی کہلاتے تھے
محفل محفل قریہ قریہ شعر سناتے جاتے تھے


قدر سخن ہم کیا جانیں ہاں رنگ سخن کچھ ایسا تھا
اچھے اچھے کہنے والے اپنے پاس بٹھاتے تھے


غزلوں میں سو رنگ ملا کر اپنا رنگ ابھارا تھا
استادوں کے سائے میں کچھ اپنی راہ بناتے تھے


گیتوں میں کچھ اور نہ ہو اک کیفیت سی رہتی تھی
جب بھی مصرعے رقصاں ہوتے معنی ساز بجاتے تھے


دوہے کہنے اور پڑھنے کا ایسا طرز نکالا تھا
سننے والے سر دھنتے تھے اور پہروں پڑھواتے تھے


سامنے بیٹھی سندر ناریں آپ طلب بن جاتی تھیں
پردوں میں سے فرمائش کے سو سو پرچے آتے تھے


''غزلیں دوہے گیت'' کی شہرت ملک سے باہر پھیلی تھی
ہندوستاں سے آنے والے تحفوں میں لے جاتے تھے


اہل ہنر کی خوشہ چینی ان کو وجہ سعادت تھی
بے ہنروں میں اپنی انا کا پرچم بھی لہراتے تھے


پھر دیکھا کہ بچہ بچہ ہنستا تھا اور عالیؔ جی
فردیں لکھتے مسلیں پڑھتے بیٹھے گلڈ چلاتے تھے