کسی کو ناز‌ خرد ہے کسی کو فخر جنوں

کسی کو ناز‌ خرد ہے کسی کو فخر جنوں
میں اپنے دل کا فسانہ کہوں تو کس سے کہوں


نہ اضطراب میں لذت نہ آرزوئے سکوں
کوئی کہے کہ میں اب کیا فریب کھا کے جیوں


رہے گی پھر نہ یہ کیفیت طلب اے دل
چھپے ہوئے ہیں تو ہے اشتیاق دید فزوں


ہے آج دل پہ گماں حسن نا شناسی کا
جلا چکے جب اسے جلو‌ ہائے گونا گوں


ہو اب بھی فکر میں مشکل تو یاد آتے ہیں
وہ ہر ادا میں تغزل کے سیکڑوں مضموں


تم ایسے کون خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
امید بھی نہ رکھوں ناامید بھی نہ رہوں