وہی مسافر مسافرت کا مجھے قرینہ سکھا رہا تھا
وہی مسافر مسافرت کا مجھے قرینہ سکھا رہا تھا جو اپنی چھاگل سے اپنے گھوڑے کو آپ پانی پلا رہا تھا دکھوں کے گارے میں ہاتھ لتھڑے ہوئے تھے میرے ہنر کے لیکن میں روتے روتے بھی مسکراتا ہوا کوئی بت بنا رہا تھا کچھ اس لیے بھی مری صدا پر ہر اک سماعت کو تھا بھروسہ گماں کے صحرا میں بیٹھ کر ...