تمام شہر تو بے مہر نیند سو رہا تھا

تمام شہر تو بے مہر نیند سو رہا تھا
مگر میں آنکھوں میں نوک قلم چبھو رہا تھا


میں جانتا تھا مرے اشک مرنے والے ہیں
میں جانتا تھا کہ جو میرے ساتھ ہو رہا تھا


مجھے خبر نہیں کب آنسوؤں کو ہوش آیا
خبر ہوئی تو میں زار و قطار رو رہا تھا


کچھ اس لیے بھی خدا کی مجھے ضرورت تھی
میں اپنے کھیت میں گندم کے بیج بو رہا تھا


خیال آیا مجھے جب خدا بدلنے کا
میں اپنے اشکوں سے حرف دعا بھگو رہا تھا


مجھے جگا دیا جب فجر کے موذن نے
درون خواب میں مسجد کا صحن دھو رہا تھا


سمجھ رہا تھا جسے میں بھی نوح کی کشتی
اسی کا ناخدا لوگوں کو اب ڈبو رہا تھا


تھا با نصیب بھی اور بد نصیب بھی واصفؔ
جو پا رہا تھا کسی کو کسی کو کھو رہا تھا