عجیب خواب تھا ہم باغ میں کھڑے ہوئے تھے
عجیب خواب تھا ہم باغ میں کھڑے ہوئے تھے
ہمارے سامنے پھولوں کے سر پڑے ہوئے تھے
برہنہ تتلیاں رقصاں تھیں عریاں شاخوں پر
زمیں میں سارے شجر شرم سے گڑے ہوئے تھے
تمام پات تھے نیلے بزرگ برگد کے
اسی کو ڈسنے سے سانپوں کے پھن بڑے ہوئے تھے
ضعیف پیڑ تھے بوڑھی ہوا سے شرمندہ
جواں پرندے کسی بات پر اڑے ہوئے تھے
نہ کوئی نغمۂ بلبل نہ کوئی نغمۂ گل
خدائے صبح سے سب خوش گلو لڑے ہوئے تھے
وہیں پہ سامنے واصفؔ تھا ایک قبرستاں
جہاں یہاں وہاں سب نامور سڑے ہوئے تھے
پھر ایک قبر ہوئی شق تو اس میں تھے دو دل
اور ان دلوں میں محبت کے نگ جڑے ہوئے تھے