جبر نے جب مجھے رسوا سر بازار کیا
جبر نے جب مجھے رسوا سر بازار کیا
صبر نے میرے مجھے صاحب دستار کیا
میری لفظوں کی عمارت گری کام آئی مرے
میری غزلوں نے مرے نام کو مینار کیا
اپنے ہاتھوں میں کدورت کی کدالیں لے کر
میرے اپنوں نے مری ذات کو مسمار کیا
یاد جب آیا کوئی وعدۂ تعمیر مجھے
میں نے تب جسم کی ہر پور کو معمار کیا
اور پھر سبز اشارہ ہوا اس پار سے جب
میں نے اک جست میں دریائے بلا پار کیا
آج پھر خاک بہت روئی لپٹ کر مجھ سے
آج پھر قبر نے بابا کی مجھے پیار کیا
چاند نے رات مرے ساتھ مرے دکھ بانٹے
صبح سورج نے بھی گریہ سر دیوار کیا
آگ اشجار کو لگنے سے کئی دن پہلے
میں نے رو رو کے پرندوں کو خبردار کیا
ایسا ماتم کبھی دریا کا نہ دیکھا نہ سنا
جانے کس پیاس نے پانی کو عزا دار کیا
جب ہوا دینے لگی ٹھنڈے دلاسے مجھ کو
کچھ چراغوں نے بھی افسوس کا اظہار کیا
دیکھ کر جلتی ہوئی جھونپڑی کل شب واصفؔ
میں نے سوئے ہوئے درویش کو بیدار کیا