کبھی زمین کبھی آسماں سے لڑتا ہے

کبھی زمین کبھی آسماں سے لڑتا ہے
عجیب شخص ہے سارے جہاں سے لڑتا ہے


کسی کے عشق کی منت کا تیل ہے اس میں
اسی لیے تو دیا آستاں سے لڑتا ہے


ہمیں یہ بانجھ بہو بے نشان کر دے گی
یہ بات کہہ کے وہ بیٹے کی ماں سے لڑتا ہے


کرایے دار کی نیند اس قدر پریشاں ہے
وہ روز خواب میں مالک مکاں سے لڑتا ہے


یہ کس کے قرض کا ہے بوجھ میری میت پر
یہ کون ہے جو مرے خانداں سے لڑتا ہے


دعا ہے خیر ہو اس گھر کی جس میں رو رو کر
کوئی بزرگ کسی نوجواں سے لڑتا ہے


بس ایک خاص نشانی ہے میرے مدفن کی
کہ اس مکاں میں کوئی لا مکاں سے لڑتا ہے


بڑے یقین سے کچھ بے یقین مانگتے ہیں
وہ اک یقین جو وہم و گماں سے لڑتا ہے


اذان دیتا ہوں جب میں سخن کی مسجد میں
ہر ایک بے نوا میری اذاں سے لڑتا ہے


میں اپنے عہد کا واصفؔ ہوں اور شاعر ہوں
زمانہ کس لیے مجھ ناتواں سے لڑتا ہے