میں وقت کی آب جو سے آگے نکل گیا ہوں
میں وقت کی آب جو سے آگے نکل گیا ہوں
سو دہر کی ہا و ہو سے آگے نکل گیا ہوں
میں بے شریعت طہارتوں کی تلاش میں تھا
میں با شریعت وضو سے آگے نکل گیا ہوں
تو جانتا ہے کہ میرا وجدان وجد میں ہے
تو جانتا ہے میں تو سے آگے نکل گیا ہوں
میں رقص کرتے ہوئے تہجد کی ساعتوں میں
عبادتوں کے غلو سے آگے نکل گیا ہوں
نہ جانے کس کائنات میں پاؤں رکھ دیے ہیں
میں رات دن کی نمو سے آگے نکل گیا ہوں
عبث ہیں سب عالم تحیر مری نظر میں
میں عالم جستجو سے آگے نکل گیا ہوں
میں اس جہان قبا دریدہ کا بخیہ گر تھا
مگر میں کار رفو سے آگے نکل گیا ہوں
مجھے نئی شکل کی زمیں پر ہے بات کرنی
میں بیضوی گفتگو سے آگے نکل گیا ہوں
مری اجل کی بھی موت ایجاد ہو گئی ہے
میں سانس لیتے لہو سے آگے نکل گیا ہوں
مجھے نہیں اپنے رخت ہستی کی فکر واصفؔ
میں ہست کی آرزو سے آگے نکل گیا ہوں