وہی مسافر مسافرت کا مجھے قرینہ سکھا رہا تھا
وہی مسافر مسافرت کا مجھے قرینہ سکھا رہا تھا
جو اپنی چھاگل سے اپنے گھوڑے کو آپ پانی پلا رہا تھا
دکھوں کے گارے میں ہاتھ لتھڑے ہوئے تھے میرے ہنر کے لیکن
میں روتے روتے بھی مسکراتا ہوا کوئی بت بنا رہا تھا
کچھ اس لیے بھی مری صدا پر ہر اک سماعت کو تھا بھروسہ
گماں کے صحرا میں بیٹھ کر میں یقین کے گیت گا رہا تھا
سنا ہے کل رات مر گیا وہ برہنہ درویش جھونپڑی میں
فنا کے بستر پہ جو بقا کی حریص گدڑی بچھا رہا تھا
مری نظر میں وہ طفل مسجد کے پیشوا سے بھی محترم ہے
جو احتراماً گلی سے گندم کے بکھرے دانے اٹھا رہا تھا
بہت مقدس تھے اس سپاہی کی دونوں آنکھوں کے سرخ ڈورے
جو سوئی مخلوق کی حفاظت میں خواب اپنے گنوا رہا تھا
تمام شب اس کے بھوکے بچوں نے جاگ کر ہی گزار دی تھی
خودی کے فٹ پاتھ پر جو غربت تھپک تھپک کر سلا رہا تھا
وہ میری برسی پہ میری میت کے نام شام غزل تھی واصفؔ
میں اپنی تربت میں لیٹے لیٹے کلام سب کو سنا رہا تھا