مجھے کوئی ایسی غزل سنا کہ میں رو پڑوں
مجھے کوئی ایسی غزل سنا کہ میں رو پڑوں
ذرا جے جے ونتی کے سر لگا کہ میں رو پڑوں
مرے ضبط تجھ کو مری طرف سے یہ اذن ہے
مرا آج اتنا تو دل دکھا کہ میں رو پڑوں
یہ جو خاک اوڑھ کے سو رہی ہے مری ہنسی
یوں بلک بلک کے اسے جگا کہ میں رو پڑوں
مرے خودکشی کے خیال پر مرے حال پر
مری بے بسی مجھے یوں ہنسا کہ میں رو پڑوں
تجھے علم ہے مرا کوئی تیرے سوا نہیں
مجھے آ کے ایسے گلے لگا کہ میں رو پڑوں
میں جہان سرخ میں سبز پوش چراغ ہوں
مری لو کو اتنا نہ آزما کہ میں رو پڑوں
مرا بخت میرا نصیب تجھ سے چھپا نہیں
مجھے دے تو ایسی کوئی دعا کہ میں رو پڑوں
یہ جو عشق کی سیہ شال ہے یہ وبال ہے
اسے یوں نہ دیکھ کے مسکرا کہ میں رو پڑوں
مری آنکھیں اب بھی تری گلی میں ہیں خیمہ زن
فقط ایک بار انہیں دیکھ جا کہ میں رو پڑوں
مرا نام تو نے رکھا تھا واصفؔ نا تمام
اسی نام سے مجھے پھر بلا کہ میں رو پڑوں