Ishrat Afreen

عشرت آفریں

تانیثی خیالات کی حامل معروف شاعرہ، گہرے سماجی اورتخلیقی شعور کے ساتھ شاعری کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔

Renowned feminist poet, known for her social consciousness and creative sensibility.

عشرت آفریں کی غزل

    لڑکیاں ماؤں جیسے مقدر کیوں رکھتی ہیں

    لڑکیاں ماؤں جیسے مقدر کیوں رکھتی ہیں تن صحرا اور آنکھ سمندر کیوں رکھتی ہیں عورتیں اپنے دکھ کی وراثت کس کو دیں گی صندوقوں میں بند یہ زیور کیوں رکھتی ہیں وہ جو آپ ہی پوجی جانے کے لائق تھیں چمپا سی پوروں میں پتھر کیوں رکھتی ہیں وہ جو رہی ہیں خالی پیٹ اور ننگے پاؤں بچا بچا کر سر کی ...

    مزید پڑھیے

    خون ناحق کی طرح گلیوں میں جب بہتی ہے رات

    خون ناحق کی طرح گلیوں میں جب بہتی ہے رات ذرہ ذرہ چیختا ہے اور چپ رہتی ہے رات پارساؤں کے حرم آباد رکھنے کے لئے داشتاؤں کی طرح ہنس ہنس کے دکھ سہتی ہے رات جب کواڑوں سے ہوا سرگوشیاں کرنے لگے تب دیے کی لو سے دھیرے دھیرے کچھ کہتی ہے رات چاند تاروں کے اسی ملبے سے تازہ آفتاب سر اٹھاتا ...

    مزید پڑھیے

    بھوک کی کڑواہٹ سے سرد کسیلے ہونٹ

    بھوک کی کڑواہٹ سے سرد کسیلے ہونٹ خون اگلتے سوکھے چٹخے پیلے ہونٹ ٹوٹی چوڑی ٹھنڈی لڑکی باغی عمر سبز بدن پتھرائی آنکھیں نیلے ہونٹ سونا آنگن تنہا عورت لمبی عمر خالی آنکھیں بھیگا آنچل گیلے ہونٹ کچے کچے لفظوں کا یہ نیلا زہر چھو جائے تو مورکھ تو بھی چھیلے ہونٹ زہر ہی مانگیں امرت ...

    مزید پڑھیے

    یہ جنگ وہ ہے کہ اب خود بھی ہارنا چاہوں

    یہ جنگ وہ ہے کہ اب خود بھی ہارنا چاہوں مگر میں اس کے لیے بھی تری رضا چاہوں مرے غلام مرے آئینے اٹھا لانا کہ میں اس آگ کو پانی میں دیکھنا چاہوں میں شاخ شاخ تری نکہتیں فزوں دیکھوں میں طاق طاق تری روشنی سوا چاہوں اٹا ہوا تری خوشبو سے پیرہن رکھوں بھرے ہوئے ترے رنگوں میں دست و پا ...

    مزید پڑھیے

    یہ وصل نہیں تو اور کیا ہے

    یہ وصل نہیں تو اور کیا ہے آئینے سے عکس بولتا ہے اب کس سے کیا کرو گے باتیں آئینہ تو عکس کھو چکا ہے یہ ہجر و وصال جس میں ہم ہیں اے لذت درد انتہا ہے اس قریۂ شب میں چاند میرے غم بھی ترا روشنی فزا ہے مت پوچھ اکیلے گھر کی وحشت مٹی کا مکان گونجتا ہے

    مزید پڑھیے

    وہ مرے خواب پیرہن چھو کر

    وہ مرے خواب پیرہن چھو کر اٹھ گیا آنکھ کی چبھن چھو کر پھر وہ مانوس خوشبوئیں لوٹیں پھر ہوائیں چلیں بدن چھو کر خواب آنکھوں میں رنگ تیر گئے بدلیاں آ گئیں کرن چھو کر دور کیوں پتھروں پہ جا بیٹھا وہ مری روح کی تھکن چھو کر تتلیاں جنگلوں کو لوٹ گئیں رنگ فطرت چمن چمن چھو کر کھائی ہوگی ...

    مزید پڑھیے

    میں پھول پھول سفر کر رہی تھی خوابوں کا

    میں پھول پھول سفر کر رہی تھی خوابوں کا پھوار لائی تھی تحفہ نئے گلابوں کا ملے تو قرب کا وہ اعتماد ہی نہ رہا بھلا تھا اس سے تو موسم وہی حجابوں کا وہ زخم چن کے مرے خار مجھ میں چھوڑ گیا کہ اس کو شوق تھا بے انتہا گلابوں کا وہ جنگلوں سے نکالے ہوئے غریب پرند جہاں گئے انہیں مسکن ملا ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی کسی کے دھیان میں اپنے آپ میں گاتی دوپہریں

    یوں ہی کسی کے دھیان میں اپنے آپ میں گاتی دوپہریں نرم گلابی جاڑوں والی بال سکھاتی دوپہریں سارے گھر میں شام ڈھلے تک کھیل وہ دھوپ اور چھاؤں کا لپے پتے کچے آنگن میں لوٹ لگاتی دوپہریں جیون ڈور کے پیچھے حیراں بھاگتی ٹولی بچوں کی گلیوں گلیوں ننگے پاؤں دھول اڑاتی دوپہریں سرگوشی ...

    مزید پڑھیے

    یہ نہیں غم کہ میں پابند غم دوراں تھی

    یہ نہیں غم کہ میں پابند غم دوراں تھی رنج یہ ہے کہ مری ذات مرا زنداں تھی صبح سے آئنہ چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے رات ہی خواب میں دیکھا تھا کہ مانگ افشاں تھی سوکھتی جاتی ہے اب ڈھلتی ہوئی عمر کے ساتھ باڑھ مہندی کی جو دروازے پہ اپنے ہاں تھی شمعیں اور سائے سے دیکھے گئے طوفان کی رات اس ...

    مزید پڑھیے

    بھوک کی کڑواہٹ سے سرد کسیلے ہونٹ

    بھوک کی کڑواہٹ سے سرد کسیلے ہونٹ خون اگلتے سوکھے چٹخے پیلے ہونٹ ٹوٹی چوڑی ٹھنڈی لڑکی باغی عمر سبز بدن پتھرائی آنکھیں نیلے ہونٹ سونا آنگن تنہا عورت لمبی عمر خالی آنکھیں بھیگا آنچل گیلے ہونٹ کچے کچے لفظوں کا یہ نیلا زہر چھو جائے تو مورکھ تو بھی چھیلے ہونٹ زہر ہی مانگیں امرت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4