خون ناحق کی طرح گلیوں میں جب بہتی ہے رات

خون ناحق کی طرح گلیوں میں جب بہتی ہے رات
ذرہ ذرہ چیختا ہے اور چپ رہتی ہے رات


پارساؤں کے حرم آباد رکھنے کے لئے
داشتاؤں کی طرح ہنس ہنس کے دکھ سہتی ہے رات


جب کواڑوں سے ہوا سرگوشیاں کرنے لگے
تب دیے کی لو سے دھیرے دھیرے کچھ کہتی ہے رات


چاند تاروں کے اسی ملبے سے تازہ آفتاب
سر اٹھاتا ہے کھنڈر کی طرح جب ڈہتی ہے رات


کون دروازے دبے قدموں نکل جاتا ہے دن
کون سی دہلیز پر سر رکھ کے سو رہتی ہے رات