یہ جنگ وہ ہے کہ اب خود بھی ہارنا چاہوں
یہ جنگ وہ ہے کہ اب خود بھی ہارنا چاہوں
مگر میں اس کے لیے بھی تری رضا چاہوں
مرے غلام مرے آئینے اٹھا لانا
کہ میں اس آگ کو پانی میں دیکھنا چاہوں
میں شاخ شاخ تری نکہتیں فزوں دیکھوں
میں طاق طاق تری روشنی سوا چاہوں
اٹا ہوا تری خوشبو سے پیرہن رکھوں
بھرے ہوئے ترے رنگوں میں دست و پا چاہوں
تمام شہر خموشی کی نیند سویا ہے
میں ایسے وقت میں اک خنجر نوا چاہوں
جو خیمہ گاہ سے نکلوں تو قتل گاہ تلک
پٹا ہوا ترے اعضا سے راستہ چاہوں
میں عہد نامۂ تنہائی لینے آئی ہوں
فصیل ہجر کا اک ایک باب وا چاہوں
مری ردائیں کنیزوں میں بانٹ دیں جس نے
خراج سایۂ دیوار اس سے کیا چاہوں