Ishrat Afreen

عشرت آفریں

تانیثی خیالات کی حامل معروف شاعرہ، گہرے سماجی اورتخلیقی شعور کے ساتھ شاعری کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔

Renowned feminist poet, known for her social consciousness and creative sensibility.

عشرت آفریں کی غزل

    میں اپنے عذاب لکھ رہی تھی

    میں اپنے عذاب لکھ رہی تھی زخموں کا حساب لکھ رہی تھی پھولوں کی زباں کی شاعرہ تھی کانٹوں سے گلاب لکھ رہی تھی اس پیڑ کے کھوکھلے تنے پر اک عمر کے خواب لکھ رہی تھی آنکھوں سے سوال پڑھ رہی تھی پلکوں سے جواب لکھ رہی تھی ہر بوند شکستہ بام و در پر بارش کا عتاب لکھ رہی تھی اک نسل کے خواب ...

    مزید پڑھیے

    جنہیں کہ عمر بھر سہاگ کی دعائیں دی گئیں

    جنہیں کہ عمر بھر سہاگ کی دعائیں دی گئیں سنا ہے اپنی چوڑیاں ہی پیس کر وہ پی گئیں بہت ہے یہ روایتوں کا زہر ساری عمر کو جو تلخیاں ہمارے آنچلوں میں باندھ دی گئیں کبھی نہ ایسی فصل میرے گاؤں میں ہوئی کہ جب کسم کے بدلے چنریاں گلاب سے رنگی گئیں وہ جن کے پیرہن کی خوشبوئیں ہوا پہ قرض ...

    مزید پڑھیے

    دل ہے یا میلے میں کھویا ہوا بچہ کوئی

    دل ہے یا میلے میں کھویا ہوا بچہ کوئی جس کو بہلا نہیں سکتا ہے کھلونا کوئی میں تو جلتے ہوئے زخموں کے تلے رہتی ہوں تو نے دیکھا ہے کبھی دھوپ کا صحرا کوئی میں لہو ہوں تو کوئی اور بھی زخمی ہوگا اپنی دہلیز پہ پھینکو تو نہ شیشہ کوئی خواہشیں دل میں مچل کر یونہی سو جاتی ہیں جیسے انگنائی ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ اٹھا لی میں نے اپنے حصے کی

    دھوپ اٹھا لی میں نے اپنے حصے کی بھر لی تھالی میں نے اپنے حصے کی اس کی آنکھوں میں خوابوں کا جنگل تھا نیند چرا لی میں نے اپنے حصے کی جب بھی اندھیرا ہوتے دیکھا بستی میں آگ جلا لی میں نے اپنے حصے کی اس کے حصے کا جیون تو دان کیا عمر بچا لی میں نے اپنے حصے کی مسند پر جھگڑا تھا لو یہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آگ کو زندہ رکھنا کتنا مشکل ہے

    اپنی آگ کو زندہ رکھنا کتنا مشکل ہے پتھر بیچ آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے کتنا آساں ہے تصویر بنانا اوروں کی خود کو پس آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے آنگن سے دہلیز تلک جب رشتہ صدیوں کا جوگی تجھ کو ٹھہرا رکھنا کتنا مشکل ہے دوپہروں کے زرد کواڑوں کی زنجیر سے پوچھ یادوں کو آوارہ رکھنا کتنا ...

    مزید پڑھیے

    شہر پر رات کا شباب اترے

    شہر پر رات کا شباب اترے مجھ پہ تنہائی کا عذاب اترے آنکھیں برسیں تو ٹوٹ کر برسیں دھوپ اترے تو بے حساب اترے ہم نئی فکر کے پیمبر ہیں ہم پہ بھی اک نئی کتاب اترے پسلیوں کے نحیف نیزوں پر بھوک کے زرد آفتاب اترے خوب تھا اہتمام دار و رسن ہم وہاں سے بھی کامیاب اترے شہر بہرا ہے لوگ پتھر ...

    مزید پڑھیے

    سائیں میرے کھیتوں پر بھی رت ہریالی بھیجو ناں

    سائیں میرے کھیتوں پر بھی رت ہریالی بھیجو ناں سکھی پرندوں کی چہکاریں گیتوں والی بھیجو ناں ایک اک کر کے پنچھی اڑتے جائیں ٹھور ٹھکانوں سے بھوک اڑے کھلیانوں میں رت باجرے والی بھیجو ناں چکنے مکنے آنگن مانگیں روز دعائیں پرندوں کی کبھی تو ان کی دعا سنو اور بھری کنڈلی بھیجو ...

    مزید پڑھیے

    دور دور صحرا ہے

    دور دور صحرا ہے اور دل اکیلا ہے لفظ لفظ پتھر ہیں زخم زخم رستا ہے کوہ جاں اٹھائے ہوں بوجھ میرا اپنا ہے زرد زرد ہیں کلیاں اور باغ مہکا ہے دن کو مت کہو قصے کوئی راہ بھولا ہے میں کہ عشق پیچاں ہوں تو شکستہ چھجا ہے کیوں خموش ہے سبزہ زہر پی کے سویا ہے مدرسے کی اینٹوں پر سب کچھ اب ...

    مزید پڑھیے

    وحشت سی وحشت ہوتی ہے

    وحشت سی وحشت ہوتی ہے زندہ ہوں حیرت ہوتی ہے جل بجھنے والوں سے پوچھو غم کی کیا حدت ہوتی ہے رہن نہ رکھ دینا بینائی اس کی بھی مدت ہوتی ہے سارے قرض چکا دینے کی کبھی کبھی عجلت ہوتی ہے دل اور جان کے سودے جو ہیں ان میں کب حجت ہوتی ہے خود سے جھوٹ کہاں تک بولیں تھوڑی سی خفت ہوتی ہے اپنے ...

    مزید پڑھیے

    عداوتیں نصیب ہو کے رہ گئیں

    عداوتیں نصیب ہو کے رہ گئیں محبتیں رقیب ہو کے رہ گئیں پرند ہیں نہ آنگنوں میں پیڑ ہیں یہ بستیاں عجیب ہو کے رہ گئیں ترس رہی ہیں یوں بہار کو رتیں غریب کا نصیب ہو کے رہ گئیں بس ایک پل دھنک کی ساری شوخیاں مرے بہت قریب ہو کے رہ گئیں مرے دکھوں کا ذکر شہر شہر ہے اداسیاں نقیب ہو کے رہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4