اقبال جہاں قدیر کی غزل

    ہر مکاں لا مکاں کی گنجائش

    ہر مکاں لا مکاں کی گنجائش دل میں ہے دو جہاں کی گنجائش پر پرواز میں اتر آئی وسعت آسماں کی گنجائش سجدۂ شوق میں سما جائے آپ کے آستاں کی گنجائش نام اس کو وفا کا مت دیجئے جس میں ہو امتحاں کی گنجائش حسن اعمال کا تعین کر دیکھ عمر رواں کی گنجائش پھیل جائے تو آسماں چھو لے اس کے ذکر و ...

    مزید پڑھیے

    دو ہاتھوں کے دو ہیں اصول

    دو ہاتھوں کے دو ہیں اصول ایک میں پتھر ایک میں پھول ترک تمنا کی یہ بات کون کرے گا دل سے قبول راہنما کو فکر ہی کیا کوئی مسافر کیوں ہے ملول یاد رہیں گے عمر تمام آپ کے وعدے آپ کی بھول ایک نہ سر سے بوجھ ٹلا اور بلاؤں کا ہے نزول چال نہ اتنی تیز چلو سر سے اونچی پاؤں کی دھول بات بنے گی ...

    مزید پڑھیے

    زلزلے جب انا کے غضب ڈھا گئے

    زلزلے جب انا کے غضب ڈھا گئے سنگریزے پہاڑوں سے ٹکرا گئے ہم ہیں پروردۂ حادثات جہاں آپ تو ایک صدمے سے گھبرا گئے پھول ہی پھول تھے خوشبوؤں کے چمن حسن کردار کو میرے مہکا گئے جس کی قسمت میں تھیں تنگ دامانیاں پیر چادر سے آگے وہ پھیلا گئے بوند پانی نہ سوکھی زمیں کو ملا دیکھنے میں کئی ...

    مزید پڑھیے

    نظر نظر میں تقاضا ضرور ہوتا ہے

    نظر نظر میں تقاضا ضرور ہوتا ہے چھپا ہوا کوئی جذبہ ضرور ہوتا ہے کبھی وہ سامنے ہوتے کبھی نہیں ہوتے تصورات میں دھوکا ضرور ہوتا ہے نہیں کچھ اس کا کسی اہل غم کو اندازہ کہ بوجھ بڑھنے سے ہلکا ضرور ہوتا ہے کہیں ذرا بھی بناوٹ نظر نہیں آتی ترے ستم میں سلیقہ ضرور ہوتا ہے عجیب شے ہے ...

    مزید پڑھیے

    راستہ ہی راستہ تھا نقش پا تھا ہی نہیں

    راستہ ہی راستہ تھا نقش پا تھا ہی نہیں دشت وحشت میں کوئی اپنے سوا تھا ہی نہیں ابتدا سے پڑھ چکے دل کی کتاب آخر تلک لیکن اس میں تو کہیں ذکر وفا تھا ہی نہیں وہ کوئی گور غریباں تھا کہ تھا شہر غزل آس پاس اس کے کوئی آتش نوا تھا ہی نہیں حسن سیرت سے منور تھی فضائے انجمن اتنے چہروں کے ...

    مزید پڑھیے

    حقیقتوں کا نہ پردہ ابھی اٹھانا تھا

    حقیقتوں کا نہ پردہ ابھی اٹھانا تھا خیال و خواب کا منظر بڑا سہانا تھا طلب کی راہ میں تھی آرزوئے دل دشمن نہ امتحاں تھا کسی کا نہ آزمانا تھا چل اڑ کے اور پرندے کہیں بسیرا کر وہ پیڑ کٹ گئے جن پر ترا ٹھکانا تھا نہ حوصلہ تجھے دیتا کبھی دل نازک اگر مجھے کسی منزل پہ ٹوٹ جانا تھا بدل ...

    مزید پڑھیے

    اک یاد جو ماضی کی مرے دل میں بسی ہے

    اک یاد جو ماضی کی مرے دل میں بسی ہے سائے کی طرح میرے تعاقب میں لگی ہے یہ سلسلۂ بحر کہیں ٹوٹ نہ جائے آگے تو فقط پیاس ہے اور تشنہ لبی ہے افسانے کا عنوان ابھی تک ہے ادھورا محفل ہے سجی صاحب محفل کی کمی ہے تعریف یہی ہے مرے انداز سخن کی مہکے ہوئے الفاظ کی اک شکل گری ہے یہ صاف نہ ہوگی ...

    مزید پڑھیے

    حسن پرواز بے کراں بولے

    حسن پرواز بے کراں بولے سر اٹھاؤں تو آسماں بولے اس نظر کی زبان کو سمجھو جو خموشی کے درمیاں بولے بے خودی میں نظر نہیں آتا ہم کہاں سمجھے تم کہاں بولے ختم ہو جب فساد کی شورش گھر کی دیوار سائباں بولے بولیوں کے ہجوم میں رہ کر کوئی بولی نہ بے زباں بولے تم نہ بولو تو اک جہاں خاموش تم ...

    مزید پڑھیے

    منزل ہو کوئی ذوق سفر اپنی جگہ ہے

    منزل ہو کوئی ذوق سفر اپنی جگہ ہے ہم اپنی جگہ راہ گزر اپنی جگہ ہے یہ بھی تو غنیمت ہے کہ ہم زندہ ہیں اب تک اس شہر فسادات میں گھر اپنی جگہ ہے تنقید کا دروازہ بہر حال کھلا ہے ہر دعوائے ارباب ہنر اپنی جگہ ہے ہر بزم میں لازم ہی سہی بیٹھنا اٹھنا اس کا بھی تعین ہو کدھر اپنی جگہ ہے کیا ...

    مزید پڑھیے