منزل ہو کوئی ذوق سفر اپنی جگہ ہے
منزل ہو کوئی ذوق سفر اپنی جگہ ہے
ہم اپنی جگہ راہ گزر اپنی جگہ ہے
یہ بھی تو غنیمت ہے کہ ہم زندہ ہیں اب تک
اس شہر فسادات میں گھر اپنی جگہ ہے
تنقید کا دروازہ بہر حال کھلا ہے
ہر دعوائے ارباب ہنر اپنی جگہ ہے
ہر بزم میں لازم ہی سہی بیٹھنا اٹھنا
اس کا بھی تعین ہو کدھر اپنی جگہ ہے
کیا فیصلہ کر جائے گا اچھے کا برے کا
ہر شخص کا معیار نظر اپنی جگہ ہے
آ جائیں کسی موڑ پہ حالات بشر کے
کچھ بھی سہی احساس مگر اپنی جگہ ہے
ہم اپنی روش کو کبھی اقبالؔ نہ بدلیں
نیکی کا ہے جو اجر مگر اپنی جگہ ہے