نظر نظر میں تقاضا ضرور ہوتا ہے

نظر نظر میں تقاضا ضرور ہوتا ہے
چھپا ہوا کوئی جذبہ ضرور ہوتا ہے


کبھی وہ سامنے ہوتے کبھی نہیں ہوتے
تصورات میں دھوکا ضرور ہوتا ہے


نہیں کچھ اس کا کسی اہل غم کو اندازہ
کہ بوجھ بڑھنے سے ہلکا ضرور ہوتا ہے


کہیں ذرا بھی بناوٹ نظر نہیں آتی
ترے ستم میں سلیقہ ضرور ہوتا ہے


عجیب شے ہے زمانے میں خون کا رشتہ
کہ غیر ہو کے بھی اپنا ضرور ہوتا ہے


یہ اور بات خلش اس کی دل میں رہ جائے
کوئی بھی زخم ہو اچھا ضرور ہوتا ہے


ڈھلیں گی نور میں اقبالؔ ظلمتیں اک دن
طویل شب کا سویرا ضرور ہوتا ہے