زلزلے جب انا کے غضب ڈھا گئے

زلزلے جب انا کے غضب ڈھا گئے
سنگریزے پہاڑوں سے ٹکرا گئے


ہم ہیں پروردۂ حادثات جہاں
آپ تو ایک صدمے سے گھبرا گئے


پھول ہی پھول تھے خوشبوؤں کے چمن
حسن کردار کو میرے مہکا گئے


جس کی قسمت میں تھیں تنگ دامانیاں
پیر چادر سے آگے وہ پھیلا گئے


بوند پانی نہ سوکھی زمیں کو ملا
دیکھنے میں کئی ابر منڈلا گئے


اڑتی اڑتی چلی آئی یاد وطن
اجنبی شہر میں ہم جو تنہا گئے


اجلا اجلا سہی دامن عہد نو
سارے نقش کہن ہم کو یاد آ گئے