اک یاد جو ماضی کی مرے دل میں بسی ہے

اک یاد جو ماضی کی مرے دل میں بسی ہے
سائے کی طرح میرے تعاقب میں لگی ہے


یہ سلسلۂ بحر کہیں ٹوٹ نہ جائے
آگے تو فقط پیاس ہے اور تشنہ لبی ہے


افسانے کا عنوان ابھی تک ہے ادھورا
محفل ہے سجی صاحب محفل کی کمی ہے


تعریف یہی ہے مرے انداز سخن کی
مہکے ہوئے الفاظ کی اک شکل گری ہے


یہ صاف نہ ہوگی کبھی اشکوں کی لڑی ہے
جو گرد زمانے کی کتابوں پہ جمی ہے


وہ دیکھیے تھم تھم کے برسنے پہ ہے مائل
شرمندہ مرے اشک سے ساون کی جھڑی ہے


کیا ہو گیا تجھ کو مرے احساس کی دنیا
بجھتے ہوئے شعلوں سے تپش مانگ رہی ہے


ہر روح میں اقبالؔ ہے اک رنگ لطافت
انسان کی تعمیر تو مٹی سے ہوئی ہے