دو ہاتھوں کے دو ہیں اصول

دو ہاتھوں کے دو ہیں اصول
ایک میں پتھر ایک میں پھول


ترک تمنا کی یہ بات
کون کرے گا دل سے قبول


راہنما کو فکر ہی کیا
کوئی مسافر کیوں ہے ملول


یاد رہیں گے عمر تمام
آپ کے وعدے آپ کی بھول


ایک نہ سر سے بوجھ ٹلا
اور بلاؤں کا ہے نزول


چال نہ اتنی تیز چلو
سر سے اونچی پاؤں کی دھول


بات بنے گی تجھ سے بھلا
عذر نہیں کوئی معقول


دیر ہوئی اقبالؔ تو کیا
کوئی دعا تو ہوگی قبول