حسن پرواز بے کراں بولے
حسن پرواز بے کراں بولے
سر اٹھاؤں تو آسماں بولے
اس نظر کی زبان کو سمجھو
جو خموشی کے درمیاں بولے
بے خودی میں نظر نہیں آتا
ہم کہاں سمجھے تم کہاں بولے
ختم ہو جب فساد کی شورش
گھر کی دیوار سائباں بولے
بولیوں کے ہجوم میں رہ کر
کوئی بولی نہ بے زباں بولے
تم نہ بولو تو اک جہاں خاموش
تم جو بولو تو اک جہاں بولے
جس سے گر جائے بات کی رفعت
بات ایسی نہ رازداں بولے
سب ہیں اقبالؔ مست اپنے میں
حال دل کب کوئی کہاں بولے