Iqbal Ejaz Baig

اقبال اعجاز بیگ

اقبال اعجاز بیگ، شاعر اور نقاد ہیں۔ سعودی عرب میں اردو کے ادبی حلقوں میں بہت معروف اور فعال ہیں۔ متعدد کتابوں پر ناقدانہ تبصرے لکھے ہیں۔ اردو کی درس و تدریس سے ایک طویل عرصے سے منسلک ہیں۔

اقبال اعجاز بیگ کی غزل

    واجب الاحترام آدمی تھا

    واجب الاحترام آدمی تھا جو بڑا بے لگام آدمی تھا جب بھی تولا گیا تو آدمی میں یہی اک دو گرام آدمی تھا وہ بھی غائب تھا اپنی کرسی سے وہ جو قائم مقام آدمی تھا کرتا رہتا تھا کچھ نہ کچھ ایجاد وہ جو اک ناتمام آدمی تھا آدمی بادشہ تھا آدمی کا آدمی کا غلام آدمی تھا جو درندے تھے پڑھ رہے ...

    مزید پڑھیے

    چھت نہ ہم پر کوئی گری صاحب

    چھت نہ ہم پر کوئی گری صاحب کوئی نعمت ہے بے گھری صاحب دیکھنے کو کہیں نہیں ہے کچھ آنکھوں پر گرد جم گئی صاحب کبھی افسر بھی بننا پڑتا ہے ایک یہ بھی ہے نوکری صاحب گھپ اندھیرے میں بھی چلی آئی روشنی روشنی رہی صاحب اس میں دیوار کی خطا کیا ہے گرنے والی تھی گر گئی صاحب وقت سے آگے جا رہا ...

    مزید پڑھیے

    زرد رخساروں میں ڈھل جانے کا فن

    زرد رخساروں میں ڈھل جانے کا فن پھولوں کو آتا ہے کمہلانے کا فن آدمی اک شہر کی بنیاد ہے جانتا ہے پاؤں پھیلانے کا فن کیا ہوئے جو گل کھلاتی تھی صبا کیا ہوا وہ خوشبو پھیلانے کا فن گھیرے رہتی ہیں ہزار آنکھیں اسے جس کو آتا ہے نظر آنے کا فن راہ کا پتھر ہوں مجھ سے پوچھئے ٹھوکروں پر ...

    مزید پڑھیے

    ہوا سے دور اگر رہا کرتی

    ہوا سے دور اگر رہا کرتی گرد اتنی نہیں اڑا کرتی اس کا کوئی خدا نہیں ہوتا انا سجدہ نہیں کیا کرتی اک تماشہ دکھانا پڑتا ہے تالی یوں ہی نہیں بجا کرتی تھما دیتی ہے ہاتھ میں پیالہ پیاس پانی نہیں پیا کرتی کرنے آتے ہیں سارے کام مجھے مجھے فرصت نہیں ملا کرتی ہوا کو ہوتے ہیں ضروری ...

    مزید پڑھیے

    لئے ہوئے جو مجھے ساتھ ساتھ پھرتا تھا

    لئے ہوئے جو مجھے ساتھ ساتھ پھرتا تھا یہ بات ان دنوں کی ہے وہ جب اکیلا تھا وہ دن گئے کہ ہنر کی تھی گرم بازاری تماشا گر بھی بہت معجزے دکھاتا تھا میں اک زوال کے عالم میں ہو رہا تھا بلند مرا کمال کسی اور ہی طرح کا تھا میں مڑ کے دیکھتا تھا اور میرے سامنے سے گزر رہا تھا جو گزرا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    جو گلی بھی تھی مرے شہر کی بڑی آفتوں میں گھری رہی

    جو گلی بھی تھی مرے شہر کی بڑی آفتوں میں گھری رہی کبھی کال چہروں کا پڑ گیا کبھی کھڑکیوں کی کمی رہی جو گزرنے والے زمانے تھے بڑی خامشی سے گزر گئے جو گھڑی بندھی تھی کلائی سے وہ کلائی ہی سے بندھی رہی جو کواڑ بند پڑے ہوئے تھے وہ سارے کھلتے چلے گئے مگر اک صدا مری دستکوں کی جو تیرے در پہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو دریاؤں کے پانی پہ پلا کرتا ہے

    وہ جو دریاؤں کے پانی پہ پلا کرتا ہے وہی ناں خود کو سمندر جو کہا کرتا ہے چہچہانا مری عادت بھی ہے مجبوری بھی میرے ساتھ ایک پرندہ بھی رہا کرتا ہے آدمی کوئی بھروسے کا نہیں ملتا ہے کوئی ہم شکل ضرور اس کا ہوا کرتا ہے سینوں میں آگ دبی رہتی ہے خاموشی سے اس لئے لاوا چٹانوں میں رہا کرتا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی کسی کو سنائی نہیں دیا ہوں میں

    ابھی کسی کو سنائی نہیں دیا ہوں میں پرانے باغوں میں اک تازہ چہچہا ہوں میں نہیں ہوں حامی میں نعرے لگانے والوں کا اسی ہجوم میں لیکن کھڑا ہوا ہوں میں پلٹ کے دیکھنے کی ہو اگر تجھے فرصت ورق کی دوسری جانب لکھا ہوا ہوں میں میں سانس لینے کی زحمت میں تو نہیں پڑتا مجھے بتایا تو ہوتا کہ مر ...

    مزید پڑھیے

    ہماری آنکھوں میں رہتا ہے ختم ہوتا نہیں

    ہماری آنکھوں میں رہتا ہے ختم ہوتا نہیں جو ہم نے واقعہ دیکھا ہے ختم ہوتا نہیں ہر اک زمانے میں یہ لوگ مارے جاتے ہیں یہ کون لوگوں کا نوحہ ہے ختم ہوتا نہیں تماشہ دیکھنے والوں کی آنکھیں جاتی رہیں مگر یہ کیسا تماشہ ہے ختم ہوتا نہیں پہنچنے والا ہوا کرتا ہے کوئی نہ کوئی اک انتظار کا ...

    مزید پڑھیے