ہماری آنکھوں میں رہتا ہے ختم ہوتا نہیں
ہماری آنکھوں میں رہتا ہے ختم ہوتا نہیں
جو ہم نے واقعہ دیکھا ہے ختم ہوتا نہیں
ہر اک زمانے میں یہ لوگ مارے جاتے ہیں
یہ کون لوگوں کا نوحہ ہے ختم ہوتا نہیں
تماشہ دیکھنے والوں کی آنکھیں جاتی رہیں
مگر یہ کیسا تماشہ ہے ختم ہوتا نہیں
پہنچنے والا ہوا کرتا ہے کوئی نہ کوئی
اک انتظار کا عرصہ ہے ختم ہوتا نہیں
نہ جانے کتنی ہی راتوں کے کام آ گیا ہے
بڑا ہی گہرا اندھیرا ہے ختم ہوتا نہیں
دو چار بوڑھے بھی آ بیٹھتے ہیں لڑکوں میں
وہ جو پرانا زمانہ ہے ختم ہوتا نہیں