ابھی کسی کو سنائی نہیں دیا ہوں میں

ابھی کسی کو سنائی نہیں دیا ہوں میں
پرانے باغوں میں اک تازہ چہچہا ہوں میں


نہیں ہوں حامی میں نعرے لگانے والوں کا
اسی ہجوم میں لیکن کھڑا ہوا ہوں میں


پلٹ کے دیکھنے کی ہو اگر تجھے فرصت
ورق کی دوسری جانب لکھا ہوا ہوں میں


میں سانس لینے کی زحمت میں تو نہیں پڑتا
مجھے بتایا تو ہوتا کہ مر گیا ہوں میں


وہ جس کی آنکھیں نہیں ہیں وہ دیکھتا ہے مجھے
جو رو‌ نما نہیں ہوتا ہے واقعہ ہوں میں