جو گلی بھی تھی مرے شہر کی بڑی آفتوں میں گھری رہی

جو گلی بھی تھی مرے شہر کی بڑی آفتوں میں گھری رہی
کبھی کال چہروں کا پڑ گیا کبھی کھڑکیوں کی کمی رہی


جو گزرنے والے زمانے تھے بڑی خامشی سے گزر گئے
جو گھڑی بندھی تھی کلائی سے وہ کلائی ہی سے بندھی رہی


جو کواڑ بند پڑے ہوئے تھے وہ سارے کھلتے چلے گئے
مگر اک صدا مری دستکوں کی جو تیرے در پہ پڑی رہی


وہ جو پٹریاں تھیں چمک چمک کے کسی کی آنکھ میں بجھ گئیں
وہ جو ریل تھی کہیں رستے میں بڑی بے بسی سے کھڑی رہی


وہ جو دسترس میں تھا معجزہ اسے کوئی رستہ نہیں ملا
مرے ہاتھ میں تھی جو روشنی مرے ہاتھ ہی میں رکھی رہی


بڑا گہرا رشتہ ہے ابر کا مرے دل کی حالت زار سے
مری چھت پہ بارشیں بھی ہوئیں مری آنکھ میں بھی نمی رہی