Iqbal Anjum

اقبال انجم

اقبال انجم کی غزل

    عجب نہیں جو یہ منظر بھی سامنے آئے

    عجب نہیں جو یہ منظر بھی سامنے آئے قدم جہاں بھی رکھیں ہم زمیں نکل جائے یہ کیا مقام ہے جب بھی نظر اٹھاتا ہوں بلندیوں کا عجب سلسلہ نظر آئے اجاڑ دیکھ کے بستی کو دل اداس ہوا کھڑے تھے جھنڈ کھجوروں کے بال بکھرائے مری نگاہ میں اک رنگ اب بھی باقی ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی کبھی بکھر ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی بات سے منظر بدل بھی سکتا تھا

    ذرا سی بات سے منظر بدل بھی سکتا تھا جو حادثہ ہوا بستی میں ٹل بھی سکتا تھا ہوائیں اس کے مرے درمیان رہتی تھیں قریب ہوتے ہوئے دشت جل بھی سکتا تھا گلا نہ کر مری رفتار کا یہ بوجھ بھی دیکھ میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا چلیں وہ آندھیاں رشتہ زمیں سے ٹوٹ گیا گھنا درخت ابھی پھول ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی بات سے منظر بدل بھی سکتا تھا

    ذرا سی بات سے منظر بدل بھی سکتا تھا جو حادثہ ہوا بستی میں ٹل بھی سکتا تھا گلا نہ کر مری رفتار کا یہ بوجھ بھی دیکھ میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا ہوائیں اس کے مرے درمیان رہتی تھیں قریب ہوتے ہوئے دشت جل بھی سکتا تھا چلیں وہ آندھیاں رشتہ زمیں سے ٹوٹ گیا گھنا درخت ابھی پھول ...

    مزید پڑھیے

    دور تک آئیں نظر دریا میں

    دور تک آئیں نظر دریا میں کشتیاں گرم سفر دریا میں موج در موج تھرکتی رہی رات چاند کی اجلی گگر دریا میں ہم نہ بھولے کبھی ان آنکھوں کو وہ چراغوں کا سفر دریا میں کس نے چپکے سے کہا ڈوب ہی جا کون تھا پچھلے پہر دریا میں ہم کہاں کھوئے رہے دیر تلک دیکھ کر عکس شجر دریا میں

    مزید پڑھیے

    ریت بن بن کے بکھرنے کی تمنائی ہے

    ریت بن بن کے بکھرنے کی تمنائی ہے زندگی درد کے صحرا میں نکل آئی ہے وہ ہر اک بزم میں تنہا ہی نظر آتا ہے ذوق تنہائی نہیں خوبیٔ یکتائی ہے کشتیاں غرق ہوئی ہوں گی نہ جانے کتنی ان کی آنکھوں کے سمندر میں وہ گہرائی ہے جس سے آگے ہے فقط دور تلک گرد و غبار جستجو اب ہمیں اس موڑ پہ لے آئی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب شور پرندوں کی اس اڑان میں تھا

    عجیب شور پرندوں کی اس اڑان میں تھا سفر کے بعد سفر کا مزہ تکان میں تھا ہوا چلی جو کبھی چونک چونک اٹھتا تھا تمام دشت ہی جیسے کسی کے دھیان میں تھا جو بات اس کے مخالف تھی اس سے کہہ نہ سکے انا کا ایک سمندر بھی درمیان میں تھا ذرا سی بات پہ جو شخص جاں پہ کھیل گیا خبر نہ تھی وہ بڑے سخت ...

    مزید پڑھیے

    کیوں گراتا ہے مرے سوچ کی دیوار کوئی

    کیوں گراتا ہے مرے سوچ کی دیوار کوئی کیوں گزرتا ہے مرے ذہن سے ہر بار کوئی چونک اٹھا ہوں ابھی اپنے خیالات سے میں یوں لگا جیسے کھڑا ہو پس دیوار کوئی میں ہوا ہوں تو کہیں سے بھی گزر جاؤں گا کیوں بضد ہے مجھے کرنے پہ گرفتار کوئی دیکھتے دیکھتے خوابوں کا نگر راکھ ہوا گھاس کے ڈھیر میں آ ...

    مزید پڑھیے

    غم ہو کہ خوشی کوئی تماشا نہیں کرتے

    غم ہو کہ خوشی کوئی تماشا نہیں کرتے کچھ لوگ کسی بات کا چرچا نہیں کرتے بے وجہ تو ہوتی نہیں آنگن کی خموشی بچوں کو ہر اک بات پہ ٹوکا نہیں کرتے انسان کی فطرت کا عجب حال ہے یارو کچھ پیڑ گھنے ہوتے ہیں سایہ نہیں کرتے اک عمر گنوائی ہے اسی موڑ پہ ہم نے پل بھر کو مسافر جہاں ٹھہرا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    گرد سفر میں آنکھ سے اوجھل کتنے ہی رہ گیر ہوئے

    گرد سفر میں آنکھ سے اوجھل کتنے ہی رہ گیر ہوئے جتنے سایہ دار شجر تھے راہ میں دامن گیر ہوئے جیون بھر کا بندھن ہم تو گھر سے توڑ کے نکلے تھے لیکن کچھ انجانے رشتے پیروں کی زنجیر ہوئے کھیل ہی کھیل میں ایک کھلونا ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا ننھے منے ہنستے بچے اشکوں کی تصویر ہوئے ہم نے جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3