ریت بن بن کے بکھرنے کی تمنائی ہے

ریت بن بن کے بکھرنے کی تمنائی ہے
زندگی درد کے صحرا میں نکل آئی ہے


وہ ہر اک بزم میں تنہا ہی نظر آتا ہے
ذوق تنہائی نہیں خوبیٔ یکتائی ہے


کشتیاں غرق ہوئی ہوں گی نہ جانے کتنی
ان کی آنکھوں کے سمندر میں وہ گہرائی ہے


جس سے آگے ہے فقط دور تلک گرد و غبار
جستجو اب ہمیں اس موڑ پہ لے آئی ہے


دن تو چہروں کے الاؤں میں جھلستے گزرا
یاد پھر کس کی مجھے شام کو گھر لائی ہے