ذرا سی بات سے منظر بدل بھی سکتا تھا

ذرا سی بات سے منظر بدل بھی سکتا تھا
جو حادثہ ہوا بستی میں ٹل بھی سکتا تھا


ہوائیں اس کے مرے درمیان رہتی تھیں
قریب ہوتے ہوئے دشت جل بھی سکتا تھا


گلا نہ کر مری رفتار کا یہ بوجھ بھی دیکھ
میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا


چلیں وہ آندھیاں رشتہ زمیں سے ٹوٹ گیا
گھنا درخت ابھی پھول پھل بھی سکتا تھا


بس ایک پل نے مجھے قید کر لیا انجمؔ
میں جب گرفت سے اس کی نکل بھی سکتا تھا