کیوں گراتا ہے مرے سوچ کی دیوار کوئی
کیوں گراتا ہے مرے سوچ کی دیوار کوئی
کیوں گزرتا ہے مرے ذہن سے ہر بار کوئی
چونک اٹھا ہوں ابھی اپنے خیالات سے میں
یوں لگا جیسے کھڑا ہو پس دیوار کوئی
میں ہوا ہوں تو کہیں سے بھی گزر جاؤں گا
کیوں بضد ہے مجھے کرنے پہ گرفتار کوئی
دیکھتے دیکھتے خوابوں کا نگر راکھ ہوا
گھاس کے ڈھیر میں آ کر گرا انگار کوئی
جھلملانے لگے وادی میں کہیں دور دیے
پھر بلاتا ہے مجھے جھیل کے اس پار کوئی