Iqbal Anjum

اقبال انجم

اقبال انجم کی غزل

    حالانکہ میں اسیر عذاب سفر نہ تھا

    حالانکہ میں اسیر عذاب سفر نہ تھا یہ اور بات ہے کہ مرا کوئی گھر نہ تھا دن رات بھاگتے ہوئے لمحوں کے درمیاں میں سوچتا تھا کوئی مرا ہم سفر نہ تھا ہم بحر زندگی سے جو چن چن کے لائے تھے خالی سبھی صدف تھے کسی میں گہر نہ تھا یوں خاک اڑ رہی ہے نگاہوں کے سامنے دشت طلب میں دور تلک کوئی گھر ...

    مزید پڑھیے

    کھو گئے حرف و معانی میرے

    کھو گئے حرف و معانی میرے کیا کیا دشمن جانی میرے میں نے دریا سے روانی چاہی خواب سارے ہوئے پانی میرے سارے منظر ہیں نظر میں اب تک دکھ سبھی کے ہوئے یعنی میرے مجھ سے ناراض نہ ہونا صاحب تم ہی غم خوار ہو ثانی میرے ریت کا ڈھیر ہے بنیاد مری تو نے یہ کیا کیا بانی میرے بھیڑ میں جانے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    وہ صورت جانی پہنچانی نہیں ہے

    وہ صورت جانی پہنچانی نہیں ہے مگر خوشبو تو انجانی نہیں ہے چلو مانا ذرا سی بات تھی وہ یہ خاموشی تو بے معنی نہیں ہے ہم آ نکلے کہاں دشت طلب میں یہاں تو دور تک پانی نہیں ہے یہاں ہر شے ہر اک رشتہ ہے مٹی یہاں کچھ بھی تو لا فانی نہیں ہے کہاں اب وہ شجر وہ ہم سفر ہیں سفر میں کوئی آسانی ...

    مزید پڑھیے

    ہر سمت خامشی کا گھنا اک حصار تھا

    ہر سمت خامشی کا گھنا اک حصار تھا حد نگاہ سلسلۂ کوہسار تھا وہ آگ تھی کہ جلتا رہا عمر بھر بدن مضمر مرے لہو میں کہیں اک شرار تھا چھو کر بلندیوں کو ہوئے بد گمان لوگ پھر اس کے بعد ایک مسلسل اتار تھا ہم نے دعائیں مانگ کر روکیں تباہیاں لیکن ہر ایک شے میں عجب انتشار تھا اک روشنی بھی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ہے کہ ہر اک گام نگوں سر ہے ابھی

    زندگی ہے کہ ہر اک گام نگوں سر ہے ابھی ذہن گھٹتے ہوئے احساس کا محور ہے ابھی چھوٹ کر جاؤں کہاں میں کہ ہوں خود میں ہی اسیر جانے کس درد کا آسیب مرے سر ہے ابھی زلزلہ بن کے مٹا دے گی کسی روز مجھے ہائے وہ شے کہ جو مضمر مرے اندر ہے ابھی نہ کوئی عکس نہ چہرہ ہے نہ پیکر کوئی دور تک دھند میں ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ وسعت امکاں نظر میں چھوڑ گیا

    اگرچہ وسعت امکاں نظر میں چھوڑ گیا سفر کا شوق غبار سفر میں چھوڑ گیا کچھ ایسے گزرا ہے پاگل ہوا کا اک جھونکا عجیب خوف سا اک اک شجر میں چھوڑ گیا بچھڑتے وقت جو اس نے کہا تھا چپکے سے وہ ایک لفظ مجھے رہ گزر میں چھوڑ گیا نہ آہٹیں نہ صدائیں نہ دستکیں نہ امید نہ جانے کون تھا کچھ بھی نہ گھر ...

    مزید پڑھیے

    حد نگاہ شام کا منظر دھواں دھواں

    حد نگاہ شام کا منظر دھواں دھواں چھانے لگا ہے ذہن کے اندر دھواں دھواں گرتی ہوئی پھوار بناتی ہوئی دھنک کچھ دیر بعد رہ گئی ہو کر دھواں دھواں لہروں سے کھیلتا ہوا کرنوں کا اک ہجوم اٹھتا ہوا سا دور افق پر دھواں دھواں اڑتے ہوئے پرند خلاؤں میں گم ہوئے پھر رہ گیا نگاہ میں جم کر دھواں ...

    مزید پڑھیے

    خواب کا ہم سفر رہا ہوں میں

    خواب کا ہم سفر رہا ہوں میں مدتوں در بدر رہا ہوں میں وہ یہیں آس پاس ہے میرے اس کو محسوس کر رہا ہوں میں اس کو پہچانتا ہوں ہر رخ سے اس کے نزدیک تر رہا ہوں میں طے ہوا یہ بھی مرحلہ آخر تیرگی سے ابھر رہا ہوں میں رت بدلنے لگی ہے پھر انجمؔ پتی پتی بکھر رہا ہوں میں

    مزید پڑھیے

    دشت طلب میں کب سے اکیلا کھڑا ہوں میں

    دشت طلب میں کب سے اکیلا کھڑا ہوں میں جس کا نہیں جواب کوئی وہ صدا ہوں میں کس کی تلاش ہے مجھے اپنے وجود میں وہ کون کھو گیا ہے جسے ڈھونڈھتا ہوں میں یہ میں نے کب کہا تھا کہ ٹھہرو مرے لیے دیکھا تو ہوتا مڑ کے کہاں رہ گیا ہوں میں ہے کس کا انتظار تجھے راہ رفتگاں تیری حدوں سے دور بہت جا ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو کہنے کے لیے صبح کے آثار بھی تھے

    یوں تو کہنے کے لیے صبح کے آثار بھی تھے میں رہا چپ کہ مرے سامنے کہسار بھی تھے خوف سے چیخنے والوں میں اکیلا میں تھا لوگ سہمے ہوئے لیکن پس دیوار بھی تھے تیز آندھی میں فقط ہم گرے ایسا تو نہیں دور تک راہ میں اکھڑے ہوئے اشجار بھی تھے عمر بھر جس کی طلب نے رکھا محصور ہمیں ہم ہی اس شہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3