Iqbal Anjum

اقبال انجم

اقبال انجم کی غزل

    زیست بے برگ و ثمر ہو جیسے

    زیست بے برگ و ثمر ہو جیسے کوئی برباد شجر ہو جیسے ڈوب جاتا ہے ہر اک منظر خواب تیری آنکھوں میں بھنور ہو جیسے کوئی دو پل بھی ٹھہرتا ہی نہیں دل کہ اجڑا ہوا گھر ہو جیسے یوں خلاؤں میں تکا کرتے ہیں دور تک راہ گزر ہو جیسے زندگی ہے کہ افق تا بہ افق اک گھنی چپ کا سفر ہو جیسے

    مزید پڑھیے

    وہ مرا کون ہے آئینہ دکھاتا کیوں ہے

    وہ مرا کون ہے آئینہ دکھاتا کیوں ہے حادثہ بن کے مرے سامنے آتا کیوں ہے میں نے کب گھر کی اداسی کی شکایت کی ہے کوئی آسیب سر شام ڈراتا کیوں ہے وہ مری راہ کا پتھر تو نہیں ہے لیکن مجھ کو ہر بار یہ احساس دلاتا کیوں ہے پھر کئی رنگ فضاؤں میں بکھر جائیں گے پھول نازک ہیں چٹانوں میں دباتا ...

    مزید پڑھیے

    عجیب طرز تکلم سے آزما کے مجھے

    عجیب طرز تکلم سے آزما کے مجھے وہ چاہتا ہے ابھی دیکھنا جھکا کے مجھے میں دیر سے ہی سہی گھر پہنچ گیا آخر وہ مطمئن تھا نیا راستہ دکھا کے مجھے اک عمر میں نے جسے غور سے نہیں دیکھا رکھا اسی نے کڑی دھوپ سے بچا کے مجھے میں آئنہ ہوں یہ اس کو خبر نہ تھی شاید وہ شرمسار ہوا روشنی میں لا کے ...

    مزید پڑھیے

    چھوٹی ہی سہی بات کی تاثیر تو دیکھو

    چھوٹی ہی سہی بات کی تاثیر تو دیکھو تھوڑا سا مگر زہر بجھا تیر تو دیکھو پل بھر میں بکھر جائیں گے مٹی کے گھروندے بچوں کی مگر حسرت تعمیر تو دیکھو کس کس کے تعاقب میں بھٹکتی رہی آنکھیں ٹوٹے ہوئے اک خواب کی تعبیر تو دیکھو لوٹ آئیں گے پھر گھر کی طرف شام کو پنچھی پیروں سے لپٹتی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    کھلا ہر منظر فکر و نظر آہستہ آہستہ

    کھلا ہر منظر فکر و نظر آہستہ آہستہ چھٹا آخر غبار رہ گزر آہستہ آہستہ وہ اک بے نام سا کوئی جزیرہ بحر امکاں میں پرندوں سے ملی ہم کو خبر آہستہ آہستہ نظر میں چشم تر میں یا کبھی آغوش دریا میں گہر تکمیل ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ نہ جانے تشنگی تھی یا کوئی احساس محرومی جلے اک آگ میں ہم ...

    مزید پڑھیے

    دور تا حد افق منظر سنہرا ہو گیا

    دور تا حد افق منظر سنہرا ہو گیا رفتہ رفتہ شام کا ہر رنگ گہرا ہو گیا یا تو اب آہٹ کوئی مجھ تک پہنچ پاتی نہیں یا مرے اندر کا سارا شہر بہرا ہو گیا ایک اک کر کے ہر اک تصویر دھندلاتی گئی جب اداسی کا کنواں کچھ اور گہرا ہو گیا کیا کہوں کس شہر کی ویرانیاں آنکھوں میں تھیں جس گھنے جنگل سے ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی عکس نہ آواز نہ چہرا ہوگا

    نہ کوئی عکس نہ آواز نہ چہرا ہوگا دور تک ایک جھلستا ہوا صحرا ہوگا کچھ تو آتا ہے نظر دن میں دھندلکا ہی سہی شام ڈھلتے ہی دھواں اور بھی گہرا ہوگا منتظر کس لیے اب تک ہیں چراغوں کی لویں وہ مسافر تھا کہیں اور بسیرا ہوگا یہ اجڑتے ہوئے جنگل یہ غبار اور یہ پیاس لوگ کہتے ہیں کسی دن یہاں ...

    مزید پڑھیے

    پاس جس کے نہ تھا کچھ رخت سفر میں ہی تھا

    پاس جس کے نہ تھا کچھ رخت سفر میں ہی تھا رات کے دشت میں بے خوف و خطر میں ہی تھا دور تک دائرہ در دائرہ غرقاب ہوا سینۂ شب میں سیاہی کا بھنور میں ہی تھا بار سے آج ہر اک شاخ جھکی جاتی ہے یا چمن میں کبھی بے برگ و ثمر میں ہی تھا میرے اطراف صداؤں کا گھنا جنگل تھا تیز آندھی میں بکھرنے کو ...

    مزید پڑھیے

    جو نظر آتا تھا باہر سے وہ کب اندر سے تھا

    جو نظر آتا تھا باہر سے وہ کب اندر سے تھا اس کے جینے کا سلیقہ اس کے پس منظر سے تھا شام ہوتے ہی اداسی گھیر لیتی تھی اسے رابطہ اس کا کہیں کیا ڈوبتے منظر سے تھا قوت پرواز پا کر بھی کہاں جاتا پرند اس کے اڑنے کا تعلق کچھ تو میرے گھر سے تھا فرد تھا جس گھر کا اس نے بھی نہ پہچانا اسے مرنے ...

    مزید پڑھیے

    پھر اسی سمت ہے سفر میرا

    پھر اسی سمت ہے سفر میرا راہ روکے کھڑا ہے ڈر میرا کیسے کیسے مکین تھے اس کے اتنا ویراں کہاں تھا گھر میرا رائیگاں ہو گئی مری محنت اور یہ بے ثمر شجر میرا راستہ ہے کہ پھیلتا جائے ختم ہوتا نہیں سفر میرا پھر ہوا یوں کہ پر ہی ٹوٹ گئے بس کہاں تھا اڑان پر میرا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3