اگرچہ وسعت امکاں نظر میں چھوڑ گیا

اگرچہ وسعت امکاں نظر میں چھوڑ گیا
سفر کا شوق غبار سفر میں چھوڑ گیا


کچھ ایسے گزرا ہے پاگل ہوا کا اک جھونکا
عجیب خوف سا اک اک شجر میں چھوڑ گیا


بچھڑتے وقت جو اس نے کہا تھا چپکے سے
وہ ایک لفظ مجھے رہ گزر میں چھوڑ گیا


نہ آہٹیں نہ صدائیں نہ دستکیں نہ امید
نہ جانے کون تھا کچھ بھی نہ گھر میں چھوڑ گیا


ابھرتے ڈوبتے گزری تمام شب انجمؔ
اداس چاند مجھے کس بھنور میں چھوڑ گیا