یوں تو کہنے کے لیے صبح کے آثار بھی تھے

یوں تو کہنے کے لیے صبح کے آثار بھی تھے
میں رہا چپ کہ مرے سامنے کہسار بھی تھے


خوف سے چیخنے والوں میں اکیلا میں تھا
لوگ سہمے ہوئے لیکن پس دیوار بھی تھے


تیز آندھی میں فقط ہم گرے ایسا تو نہیں
دور تک راہ میں اکھڑے ہوئے اشجار بھی تھے


عمر بھر جس کی طلب نے رکھا محصور ہمیں
ہم ہی اس شہر طلسمات کے معمار بھی تھے


تھا ہمیں سے کبھی تہذیب و تمدن کا وقار
ہم کبھی شاخ گل تر کبھی تلوار بھی تھے