حالانکہ میں اسیر عذاب سفر نہ تھا
حالانکہ میں اسیر عذاب سفر نہ تھا
یہ اور بات ہے کہ مرا کوئی گھر نہ تھا
دن رات بھاگتے ہوئے لمحوں کے درمیاں
میں سوچتا تھا کوئی مرا ہم سفر نہ تھا
ہم بحر زندگی سے جو چن چن کے لائے تھے
خالی سبھی صدف تھے کسی میں گہر نہ تھا
یوں خاک اڑ رہی ہے نگاہوں کے سامنے
دشت طلب میں دور تلک کوئی گھر نہ تھا
بارش کی سازشوں میں ہوا بھی شریک تھی
لیکن مکین شہر کوئی باخبر نہ تھا
لوگوں نے سنگسار کیا اس کے باوجود
وہ مطمئن تھا اس کا کہا بے اثر نہ تھا