ہر سمت خامشی کا گھنا اک حصار تھا

ہر سمت خامشی کا گھنا اک حصار تھا
حد نگاہ سلسلۂ کوہسار تھا


وہ آگ تھی کہ جلتا رہا عمر بھر بدن
مضمر مرے لہو میں کہیں اک شرار تھا


چھو کر بلندیوں کو ہوئے بد گمان لوگ
پھر اس کے بعد ایک مسلسل اتار تھا


ہم نے دعائیں مانگ کر روکیں تباہیاں
لیکن ہر ایک شے میں عجب انتشار تھا


اک روشنی بھی دست مسافت میں ساتھ تھی
کوئی تو مجھ سے آگے سر رہ گزار تھا