زندگی ہے کہ ہر اک گام نگوں سر ہے ابھی
زندگی ہے کہ ہر اک گام نگوں سر ہے ابھی
ذہن گھٹتے ہوئے احساس کا محور ہے ابھی
چھوٹ کر جاؤں کہاں میں کہ ہوں خود میں ہی اسیر
جانے کس درد کا آسیب مرے سر ہے ابھی
زلزلہ بن کے مٹا دے گی کسی روز مجھے
ہائے وہ شے کہ جو مضمر مرے اندر ہے ابھی
نہ کوئی عکس نہ چہرہ ہے نہ پیکر کوئی
دور تک دھند میں لپٹا ہوا منظر ہے ابھی
حادثے گھیر نہ لیں پھر سر بازار مجھے
میرے سینے میں وہی شور سمندر ہے ابھی